رسائی کے لنکس

نفرت انگیز تقریروں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کاروائی ہونی چاہیے، بھارتی سپریم کورٹ


فائل فوٹو)
فائل فوٹو)

بھارتی سپریم کورٹ نے مبینہ نفرت انگیز تقریروں پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کا ماحول خراب ہو رہا ہے، اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبصرہ عدالت میں داخل ایک عذرداری پر سماعت کے دوران کیا۔ عذرداری میں الزام عاید کیا گیا ہے کہ حکومت ایسی تقریروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ عذرداری میں وزیر اعظم نریند رمودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت 42 افراد کو فریق بنایا گیا ہے۔

چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس آر رویندر بھٹ پر مشتمل بینچ نے کہا کہ نفرت انگیز تقریروں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہم دیکھیں گے کہ ایسی تقریروں میں کون ملوث ہے اور کون نہیں۔

سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں کے زیر اہتمام اتوار کو دہلی میں منعقدہ ریلی میں کی گئی مبینہ متنازع تقریروں اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان پرویش ورما کی جانب سے مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ کی مبینہ اپیل کے ایک روز بعد آیا ہے۔ دہلی پولیس نے ریلی کے منتظمین کے خلاف رپورٹ درج کی ہے تاہم کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

یہ عذرداری انسانی حقوق کی ایک کارکن ہرپریت منسکھانی سہگل نے دائر کی ہے۔ انھوں نے سماعت کے دوران ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہو کر الزام عائد کیا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بھارت کو ہندو ملک بنانے کی خاطر نفرت انگیز تقریریں کی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ایک سیاسی جماعت نے فلم ’کشمیر فائلز‘ کی فنڈنگ کی اور پھر اسے بی جے پی حکومت والی کئی ریاستوں میں ٹیکس فری کیا گیا۔

قانونی معاملات کی رپورٹنگ کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’لائیو لا‘ کے مطابق سماعت کے دوران درخواست دہندہ نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے رہنماوں نے اقلیتی افراد کی ہلاکت اور ان کی گرفتاری کا اعتراف کیا ہے۔

یاد رہے کہ دہلی سے متصل غازی آباد ضلع کے لونی اسمبلی حلقے سے بی جے پی کے رکن نند کشور گوجر کی دہلی ریلی میں کی گئی تقریر کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے شمال مشرقی دہلی میں سال 2020 میں ہونے والے فساد میں ملوث ہونے کا مبینہ اعتراف کیا ہے۔ انھوں نے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جہادیوں کو مارا اور ہمیشہ ماریں گے‘۔

ہرپریت منسکھانی کے مطابق اس سے قبل متعدد وکلا نے سپریم کورٹ میں نفرت انگیز تقریروں کا حوالہ دیا تھا۔ 76 قانون دانوں نے سابق چیف جسٹس این وی رمنا سے اپیل کی تھی کہ وہ از خود کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی تحقیقات کریں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ متعدد سابق فوجی عہدے دراوں اور افسر شاہوں نے وزیر اعظم سے کارروائی کی اپیل کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اس پر بینچ نے کہا کہ عذرداری میں ہیٹ اسپیچ کے 58 واقعات کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کوئی تفصیل نہیں پیش کی گئی کہ کس نے تقریر کی، کہاں کی اور کیا کوئی کارروائی کی گئی۔ عذرداری میں پیش کی گئی باتیں مبہم ہیں۔ عدالت نے ہدایت دی کہ 30 اکتوبر تک ایک حلف نامہ داخل کرکے تفصیلات پیش کی جائیں۔ اس نے اگلی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی۔

ادھر جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور ہیما کوہلی کے بینچ نے گزشتہ سال دسمبر میں اتراکھنڈ کے ہریدوار اور دہلی میں منعقد ہونے والے ہندووں کے ایک پروگرام ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ہندووں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے اترا کھنڈ اور دہلی کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ حلف نامہ داخل کرکے بتائیں کہ اس معاملے میں کیا کارروائی کی گئی۔


حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے نئے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا کہ چونکہ انھوں نے ابھی یکم اکتوبر کو حکومت کے اعلیٰ لا آفیسر کا عہدہ سنبھالا ہے اس لیے انھیں اس معاملے کے مطالعے کے لیے وقت دیا جائے۔ انھوں نے حکومت کی جانب سے کہا کہ ایسے معاملات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے انھیں اپنا جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔

تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مبینہ نفرت انگیز تقریروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور انسانی حقوق کے سینئر کارکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کا کہنا تھا کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نفرت انگیز تقریریں کی جا رہی ہیں تاکہ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کیا جا ئے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مبصرین کے اس الزام کی تائید کی کہ ایسی تقریروں کو حکومت کی حمایت حاصل ہے۔

انھوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل ہریدوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ لیکن حکومت اور پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ جب اس معاملے پر کافی احتجاج ہوا تب جا کر ایک متنازع ہندو مذہبی رہنما یتی نرسنگھا نند کو گرفتار کیا گیا لیکن انھیں جلد ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور وہ اب بھی متنازع بیانات دے رہے ہیں۔


بعض تجزیہ کار ہرپریت منسکھانی سہگل کے الزامات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندو تنظیموں کے کئی کارکنوں نے کھلے عام مسلمانوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کئی گئی۔ انھوں نے الزام عاید کیا کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ ملک میں نفرت انگیز ماحول بنا رہے۔ بقول ان کے آر ایس ایس اور بی جے پی ملک میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھارت کو ہندو ملک بنانے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔

مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی ایم) نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل پر پرویش ورما کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کے ریاستی سکریٹری کے ایم تیواری نے ایک بیان میں کہا کہ ہندوتو نواز طاقتیں ملک میں نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

دہلی اقلیتی کمیشن میں کمیٹی برائے مسلم امو رکے ایک رکن اویس سلطان خاں نے ایسی تقریروں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر اظہار افسوس کیا۔ ان کے مطابق اتوار کو دہلی میں ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی لیکن ابھی تک کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور، مدراس ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج آر ایس سوڈھی، پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش اور مرکزی حکومت کے سابق سکریٹری جی کے پلئی پر مشتمل کمیٹی نے دہلی فسادات پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ رواں ہفتے نئی دہلی میں جاری کی جس میں انھوں نے فساد پر قابو پانے میں مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور مرکزی وزارت داخلہ کی ناکامی کو ذمہ دار قرار دیا۔

رپورٹ میں دہلی پولیس پر سخت تنقید کی گئی ہے او رالزام عاید کیا گیا ہے کہ اس نے تشدد سے متعلق بیشتر معاملات میں فرضی گواہ پیش کیے۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال کسی کی جواب دہی طے نہیں کی جا سکی۔ رپورٹ میں حکومت اور پولیس کی ناکامیوں کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی کو بھی نفرت انگیز تقریر کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی خلاف قانون کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG