بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر سے متعلق بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، ایس جے شنکر نے منگل کو بھارت کی راجیہ سبھا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر سے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق کوئی درخواست نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر سے بھارت نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تعلقات موجود ہیں جو دو ملکوں کے درمیان ہی رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں باہمی مذاکرات ہوں گے اور وہ جب ہی ہوں گے جب پاکستان سرحد پار دہشت گردی کو روکے گا۔
تاہم، بھارت کی جانب سے امریکی صدر کا دعویٰ مسترد کیے جانے کے بعد امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ امریکی صدر واضح کر چکے ہیں، اگر بھارت اور پاکستان دونوں امریکہ سے ثالثی کی درخواست کریں تو امریکہ کشمیر تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
بھارت کے اپوزیشن رہنماؤں نے بھارتی وزیرِ خارجہ کے وضاحتی بیان کے باوجود حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ نریندر مودی خود پارلیمان میں آ کر وضاحتی بیان دیں۔
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جب تک بھارتی وزیرِ اعظم ایوان میں آ کر وضاحت نہیں دیتے تب تک اپوزیشن احتجاج جاری رکھے گی۔ بعد ازاں اپوزیشن رہنماؤں نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے واک آؤٹ بھی کیا۔
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کو یہ مسئلہ اٹھانے کی ہدایت کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکی صدر کے بیان کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں اور مزید اٹھائیں گے۔
کانگریس کے رہنما اَدھیر چوہدری نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی سرکار نے امریکہ کے سامنے سر جھکا دیا۔ یہ ایک گمبھیر صورتحال ہے اور ہم اس معاملے پر شرمندہ ہیں۔
صدر ٹرمپ کے بیان پر کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کا ردعمل
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں امریکی صدر کے کشمیر سے متعلق بیان کا علیحدگی پسند رہنماؤں نے خیر مقدم کیا۔
علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے سب سے زیادہ متاثرہ فریق کشمیری عوام ہیں۔
میر واعظ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’’کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر کا جلد حل چاہتے ہیں۔ جو کوششیں یا مذاکرات پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لے کر جائیں وہ ان کی حمایت کریں گے‘‘۔
امریکی صدر کا وزیرِ اعظم پاکستان سے ملاقات کے بعد کشمیر سے متعلق بیان
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کروانے میں کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔
وزیرِ اعظم بننے کے بعد عمران خان کے پہلے دورہ امریکہ میں امریکی صدر سے ملاقات میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’مجھے دو ہفتے پہلے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کشمیر کے معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے۔ جس کے جواب میں، میں نےکہا کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو سکے تو میں بخوشی ثالث کا کردار نبھانے کے لئے تیار ہوں‘‘۔
یاد رہے کہ امریکی صدر اور بھارتی وزیرِ اعظم کے درمیان ملاقات جون میں جاپان میں ہونے والی جی 20 کانفرنس میں ہوئی تھی۔
امریکی صدر کے بیان پر بھارت میں رد عمل
امریکی صدر کی پاکستانی وزیرِ اعظم کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کے بعد بھارت میں رد عمل سامنے آ رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیشنل جنرل سیکریٹری رام مادھو نے ٹویٹ کیا کہ صدر ٹرمپ کا بیان امریکی نظام میں سب سے بڑی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بھارت اور جنوبی ایشیا کی ماہر لیسا کرٹس کی وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں موجودگی کے باوجود بھی اگر صدر ٹرمپ ایسا بیان دیتے ہیں تو اس میں بنیادی طور پر کچھ غلط ہے۔
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر اور ٹی وی میزبان میجر ریٹائرڈ گورو آریا نے ٹویٹ کیا کہ کچھ گھنٹوں کے لیے پاکستان میں بے پناہ خوشی تھی۔ اس سے پہلے کہ انھیں احساس ہوا کہ وہ "ٹرمپڈ" ہو گئے ہیں۔
انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان اور رُکن اسمبلی منیش تیواری نے ٹویٹ کیا کہ یہ بہت ہی سنجیدہ قسم کا دعویٰ ہے جس میں صدر ٹرمپ نے یا تو دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو تخلیق کیا ہے۔ یا پھر وہ باتیں آشکار کی ہیں جو دونوں کے درمیان ہوئی تھیں۔ جوائنٹ لیول سیکریٹری آفیسر کا جواب ناکافی ہے۔ وزیرِ اعظم کو چاہیئے کہ وہ دونوں ایوانوں میں بتائیں کہ انھوں نے امریکی صدر سے کشمیر پر ثالثی کے لئے کہا تھا یا نہیں؟
انڈین نیشنل کانگریس کے رکن سلمان نظامی نے ٹویٹ کیا کہ لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ عمران خان پر خوشیوں کی بارش اور کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر رہے ہیں۔ مودی کے کشمیر تنازع پر احتجاج کو کیا ہوا؟ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ پھر مودی نے صدر ٹرمپ سے ثالثی کے لیے کیوں کہا؟
انڈیا ٹی وی کی ایگزیکیٹو ایڈیٹر نندی رازدان نے ٹوئٹ میں کہا کہ بھارتی حکومت کے لیے بہت ہی عجیب صورتحال ہے۔ وزیرِ اعظم مودی یا تو یہ مانیں کہ انھوں نے تیسرے فریق سے ثالثی کے لیے کہا یا پھر صدر ٹرمپ کو جھوٹا کہیں۔
بھارتی صحافی راجدیپ سردیسائی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ یہ نہیں سمجھتے کہ کشمیر جنوبی ایشیا میں ایک عالیشان کثیر المنزلہ عمارت ہے، جس کو ایک نئے پارٹنر کی ضرورت ہے۔