پاکستان میں مالی حالات کی وجہ سے ایوی ایشن انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار ہے اور پاکستان میں آنے والی بین الاقوامی ایئر لائنز کو اپنی آمدن اپنے ممالک واپس بھیجنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اس صورتِ حال میں انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن(ایاٹا) نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان حکومت کی طرف سے مالی معاملات میں تعاون نہیں کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ ایئر لائنز اپنے قیمتی طیاروں کا کہیں اور بہتر استعمال کرلیں۔
انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسویسی ایشن کے ریجنل وائس پریزیڈنٹ فار ایشیا پیسیفک فلپ گوہ نے وائس آف امریکہ کی طرف سے بذریعہ ای میل بھیجے گئے سوالات کے جواب میں موجودہ صورتِ حال پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان 24 کروڑ آبادی کا ملک ہے اور ایوی ایشن کے حوالے سے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔
ان کے بقول صرف سال 22-2021 کے دوران ایک کروڑ چھ لاکھ لوگوں نے بیرون ملک سفر کیا جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کس قدر صلاحیت ہے۔
دوسری جانب اس بارے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ خاقان نجیب سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
البتہ اس حوالے سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اتھارٹی نے یہ معاملہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ اٹھایا ہے اور درخواست کی ہے کہ ملک میں ایوی ایشن انڈسٹری کے استحکام کے لیے اسٹیٹ بینک فوری اقدامات کرے۔
فلپ گوہ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں بین الاقوامی ایئرلائنز کے کام کرنے کے لیے چیلنجنگ ماحول ہے۔ حکومت کی طرف سے کلب کلاس اور فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے عائد کردہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی(ایف ای ڈی) اور اس میں مزید اضافے کی اطلاعات سفر کو مزید مہنگا بنا رہی ہیں جس کی وجہ سے فضائی سفر میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اہم مسئلہ ایئر لائنز کی طرف سے کمائی گئی رقم کو اپنے ممالک میں واپس بھجوانے کا ہے۔ پاکستان میں فارن ایکسچینج پر کنٹرول کی وجہ سے یہ کمپنیاں اپنے فنڈز کو اپنے ممالک میں نہیں بھیج پا رہیں۔ کئی ایئر لائنز کو فنڈز بھجوانے میں تاخیر کا سامنا ہے۔
ان کے بقول کچھ ایئر لائنز سال 2022 میں کی جانے والی سیلز کی رقوم ابھی تک اپنے ممالک نہیں بھجوا سکی ہیں اور جنوری 2023 میں پاکستان میں موجود یہ رقم 29 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
فلپ گوہ کے مطابق آمدن کا ایک بڑا حصہ ایئرلائنز کے آپریشنل اخراجات جن میں مینٹیننس، اوور فلائٹس اور فیول شامل ہیں وہ ڈالرز میں ان ایئرلائنز کے ہیڈ آفسز میں طے ہوتے ہیں۔لہٰذا رقوم کی اپنے ممالک میں واپسی میں حائل رکاوٹیں ادائیگیوں اور آپریشنز میں تعطل کا باعث بن سکتی ہیں۔
ایاٹا نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ فارن ایکسچینج سے متعلق مسائل کو حل کرے اور ایئرلائنز کو سہولتیں فراہم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فارن ایکسچینج اپنے ملک بھجوانے کے لیے دستاویزات بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔اس مقصد کے لیے ایئرلائنز سے ہر بھجوائی جانے والی رقم کے لیےماہانہ بنیاد پر زبردستی آڈیٹر سرٹیفکیٹ مانگا جا رہا ہے جب کہ عام طور پر یہ سرٹیفکیٹ سالانہ بنیاد پر مانگا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال کے باعث رقوم کی ادائیگی مزید تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔
فلپ گوہ کے مطابق اگر مالی معاملات میں صورتِ حال جوں کی توں رہی تو پاکستان اس بات کی توقع رکھے کہ بین الاقوامی ایئرلائنز اپنے قیمتی طیاروں کو کسی بہتر جگہ استعمال کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ دسمبر 2022 میں عالمی ہوابازی کے ادارے نے کہا تھا کہ پاکستان نے عالمی ایئرلائنز کے واجب الادا 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کو روک دیا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ڈالرز کی کمی کی وجہ سے ادائیگی کے مسائل ہیں۔
پاکستان میں ایئرلائنز کے ساتھ موجودہ مسائل پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیں۔ یہ مسائل ایسے وقت میں آئے ہیں جب پاکستان ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار ہے۔
پاکستان کے ززِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور یہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق چار ارب 30 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان میں ادویات اور خوراک کے لیے ہونے والی درآمدات کے لیے بھی ڈالرز نہیں ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور جلد صورتِ حال معمول پر آجائے گی۔
پاکستان میں ڈالرز کی کمی کے بحران نے دیگر شعبوں کی طرح ہوا بازی کی صنعت کو بھی متاثر کیا ہے۔ ایئرلائنز مقامی کرنسی میں ٹکٹ فروخت کرتی ہیں لیکن ایندھن سمیت لینڈنگ رائٹس اور دیگر اخراجات کی ادائگیی کے لیے ڈالرز میں ادائیگیاں کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کی قومی ایئرلائن بھاری خسارے اور مختلف بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ماضی میں پائلٹس کی وجہ سے دیے گئے بعض بیانات کی وجہ سے کئی روٹس پر پی آئی اے کی پروازوں کو روک دیا گیا ہے جس کی وجہ سے معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔