رسائی کے لنکس

ایران نے 2008 کے مقدمے کے آخری مدعا علیہ کو پھانسی دے دی: این جی اوز


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • ایران نے ایک غیر منصفانہ مقدمے میں 2008 کے مقدمے کے آخری ساتویں ملزم کو پھانسی دے دی: این جی اوز۔
  • شیخہ اور چھ دوسرے افراد کو جنوری اور فروری 2010 میں ستمبر 2008 میں شمال مغربی شہر مہاباد میں ایک مسجد کے امام کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
  • 2018 میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
  • شیخہ کے باقی چھ ساتھیوں کو نومبر 2023 سے الگ الگ پھانسی دی گئی تھی۔
  • حقوق گروپ نے کہا کہ ہفتے کے روز سے کم از کم 20 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہےکہ ایرانی حکام نے جمعرات کو ایک کرد شخص کامران شیخہ کو پھانسی دے دی ہے، جو 2008 میں ایک مسلمان عالم کے قتل سے منسلک ایک مقدمے میں زندہ بچ جانے والا آخری مدعا علیہ تھے۔

ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (IHR) اور امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی (HRANA)، ہرانا نے الگ الگ بیانات میں کہا کہ 14سال سے زیادہ عرصہ قبل اس مقدمے میں گرفتار کیے گئے پہلے سات افراد میں شامل شیخہ کو شمال مغربی ایران کی ارمیا جیل میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ایران کی کرد اقلیت سے ہی تعلق رکھنے والے شیخہ کے تمام چھ ساتھیوں کو نومبر 2023 سے الگ الگ پھانسی دی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ انہیں تشدد اور ناروا سلوک کے دوسرے الزامات سے داغدار ایک "انتہائی غیر منصفانہ مقدمے میں" سزائے موت سنائی گئی تھی۔

ساتوں کو بدعنوانی کے سنگین جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شیخہ کو ایک "سیاسی قیدی" کے طور پر بیان کیا جنہیں ایک "انتہائی غیر منصفانہ مقدمے میں تشدد کے تحت کیے گئے اعترافات کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر محمود امیری- مقدم نے کہا کہ پھانسی "بین الاقوامی قانون اور اسلامی جمہوریہ کے اپنے قوانین کے مطابق غیر قانونی تھی، جسے ایک ماورائے عدالت قتل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔"

امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی (HRANA) ہرانا نے کہا کہ یہ مقدمہ ستمبر 2008 میں شمال مغربی شہر مہاباد میں ایک مسجد کے امام کے قتل سے متعلق تھا۔

شیخہ اور چھ دوسرے افراد کو جنوری اور فروری 2010 میں قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2018 میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

حقوق گروپ نے کہا کہ ہفتے کے روز سے کم از کم 20 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران میں جہاں شیعہ مذہب غالب ہے ،مغربی اور جنوب مشرقی ایران میں سنی مسلک کے حامل کرد اور بلوچ نسلی اقلیتوں کے ارکان کو ہدف بنا کر سزائے موت کا غیر متناسب استعمال کیا جاتا ہے۔

حقوق کے گروپوں نے کہا ہے کہ ایک تازہ ترین مقدمے میں تہران کی انقلابی عدالت نے دارالحکومت کی ایون جیل میں قید ایک کرد خاتون پخشاں عزیزی کو "بغاوت" کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔

اس ماہ کے شروع میں ایرانی حکام نے ایک اور کرد خاتون شریفہ محمدی کو بھی ایک کالعدم کرد تنظیم سے رابطوں پر ایسے ہی الزامات کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے انتباہ کیا ہے کہ شیخہ کی پھانسی ایران میں پھانسیوں میں ایک نئے اضافے کا حصہ ہے جو کئی ہفتے قبل اچانک ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ایک ظاہری خاموشی کے خاتمے کی علامت ہے۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG