افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتِ حال پر ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک اہم کانفرنس ہو رہی ہے جس میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہو رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں میزبان ایران کے علاوہ پاکستان، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں۔ البتہ طالبان کا کوئی وفد اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ایران کابل کی نئی وسیع البنیاد حکومت میں ہزارہ برادری کی مناسب نمائندگی کا خواہش مند ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے شدت پسند تنظیم داعش کے دوبارہ سر اٹھانے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔
وزرائے خارجہ کی سطح پر بدھ کو ہونے والی یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے۔ جب شورش زدہ افغانستان کا اقتصادی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور سینئر صحافی راشد حسین سید کے مطابق اس کانفرنس کے ذریعے ایران کی کوشش ہو گی کہ افغانستان میں مستقبل کی وسیع البنیاد حکومت میں ہزارہ برادری کو حکومت سازی کے عمل میں مناسب نمائندگی دی جائے۔
ماضی کی تلخیوں کے برعکس ایران اور طالبان کے درمیان حالیہ چند برس میں تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ راشد حسین اس کی بنیادی وجہ مشترکہ مخالف فریق امریکہ کو گردانتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاس طالبان کو سپورٹ کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ تاہم وہ کسی بھی طرح سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ طالبان افغانستان کی مکمل باگ ڈور سنبھال لیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران نے پنجشیر کے حلقوں کی مدد کی۔ تاہم ان کی شکست کے بعد ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے ہیں۔
راشد حسین کے بقول ایران کو افغانستان میں بسنے والی شیعہ برادری کی سیکیورٹی کی بھی فکر لاحق ہے۔ وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں ایران ان کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
رواں ماہ افغانستان کے شہر قندوز اور قندھار میں شیعہ برادری کی دو مساجد میں نمازِ جمعہ کے دوران ہونے والے خودکش حملوں میں سو سے زائد افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔
راشد حسین کے مطابق افغانستان میں بسنے والی دوسری اقلیتوں کے لوگ بھی شامل کیے ہیں۔ تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ پڑوسی ممالک ابھی تک طالبان کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں کیوں کہ جو وعدے انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل کیے تھے ان پر تاحال وہ عمل پیرا نہیں ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر دنیا انہیں تسلیم نہیں کرتی تو وہ مشکلات میں اسی طرح گھرے رہیں گے۔ اندرونِ خانہ جو مسائل جنم لے رہے ہیں وہ اسی صورت میں ہی حل ہو سکتے ہیں کہ انہیں کم از کم پڑوسی ممالک ہی تسلیم کرلیں۔ کیوں کہ اس سے بھی ان کی معاشی حالت میں قدرے بہتری آ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کے لیے بھی بہت پریشان کن صورتِ حال ہے اور وہ ایسی صورتِ حال میں مزید نہیں رہ سکتے ہیں۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے پورا ملک اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔ کئی ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور لوگ اپنے گھروں کا سامان بیچنے پر مجبور ہیں۔
راشد حسین کے مطابق پہلے اگر کوئی طالبان کا ساتھ دیتا تھا تو وہ ان کے نظریے کے قائل تھے۔ اب ایسا ممکن نہیں ہے کہ پورا ملک بھوک و افلاس کے ساتھ ننگے پاؤں ان کے نظریے کے تحت جنگ کرے۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے طالبان کو بھی بہت سارے مسائل پر سمجھوتا کرنا پڑے گا اور وہ تب ہی ممکن ہو گا جب وہ حکومت سازی میں دوسروں کو بھی مناسب نمائندگی دیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر طالبان بھی مخالف دھڑوں کو حکومت سازی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کے بقول مغرب کے منظورِ نظر افراد جس میں سابق صدر حامد کرزئی، گلبدین حکمت یار اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جیسے افراد شامل ہیں، طالبان انھیں قطعا نمائندگی دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
راشد حسین کا مزید کہنا تھا کہ اس کانفرنس میں پاکستان کی زیادہ دلچسپی وسیع البنیاد حکومت سے زیادہ افغانستان میں استحکام کی پالیسی پر مرکوز رہے گی۔
ان کے بقول پاکستان کو خدشہ ہے کہ عدم استحکام کی صورت میں کہیں پناہ گزین پاکستان کا دوبارہ رُخ نہ کرلیں کیوں کہ پاکستان مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
طالبان کے گزشتہ دورِ حکومت میں ایران کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے جس کی بنیادی وجہ مزارِ شریف میں پیش آنے والے واقعات تھے جن میں کچھ ایرانی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ایران کو ہزارہ برادری کے ساتھ ناروا سلوک پر طالبان سے سخت شکایت تھی۔
کاردان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے سابق سربراہ فہیم سادات کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس دو لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پہلی یہ کہ ایران دیکھنا چاہے گا کہ پڑوسی ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے کیا شرائط سامنے لاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایران افغانستان میں بسنے والی ہزارہ برادری کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنے تحفظات پیش کرے گا۔
ان کے مطابق ایران کی یہ بھی خواہش ہو گی کہ انہیں حکومت سازی میں مناسب نمائندگی ملے تاکہ وہ مستقبل میں اپنی دفاع کے حوالے سے اپنی پالیسیاں خود مرتب کر سکیں۔
فہیم سادات کے مطابق ایران کو افغانستان میں داعش کے دوبارہ پنپنے کی وجہ سے شدید تشویش لاحق ہے۔ کیوں کہ طالبان افغانستان میں شیعہ برادری کو مناسب سیکیورٹی دینے میں ناکام ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہ صرف سرد مہری کا شکار ہیں بلکہ دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی برادری بشمول ہمسایہ ممالک کے پاس طالبان کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ تاہم وہ یہ ضرور چاہیں گے کہ اس طرز کی کانفرنسز سے طالبان پر دباؤ بڑھا سکیں تاکہ خطہ مزید عدم و استحکام کا شکار نہ ہو۔