ایران اورمغربی طاقتوں کے درمیان تہران کی جوہری سرگرمیوں پر مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے ہورہا ہے۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہونے والے ان مذاکرات میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین – امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس – اور جرمنی کے نمائندے شریک ہوں گے۔
مغربی طاقتیں ایک عرصے سے اس شبہ کا اظہار کرتی آئی ہیں کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کا مقصد جوہری ہتھیار تیار کرنا ہے۔
باوجودیکہ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے اور اس کے ان مبینہ ارادوں کے متعلق ٹھوس شواہد بھی دستیاب نہیں ہیں، سلامتی کونسل کی جانب سے ایران پر کئی پابندیاں عائد ہیں تاکہ اسے یورینیم کی افزودگی اور دیگر متنازع سرگرمیاں روکنے پر مجبور کیا جاسکے۔
بغداد مذاکرات سے قبل ایران اور اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی کے نمائندوں کے درمیان بھی ایک ملاقات ہونے جارہی ہے جس میں ایران کی مشتبہ جوہری تنصیبات تک عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دینے کے معاملے پر غور کیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ویانا میں ہونے والی اس ملاقات کے نتائج بغداد مذاکرات پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
نکولس برنز ہارورڈ یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ماضی میں ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں امریکی نمائندے کے طور پر شریک رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں دو رائے نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے لہذا ان کی رائے ہے کہ بغداد مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔
مغربی طاقتیں ایران سے یورینیم کی افزودگی ترک کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ایران اس مطالبے کو ملکی خودمختاری کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد سے انکاری ہے۔
اسٹیو ریڈمیکر امریکی محکمہ خارجہ کے سابق افسر ہیں جو ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق امریکی پالیسیوں کی تشکیل میں شریک رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کو یورینیم کی افزودگی کی ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہوگی کیوں کہ یہ عمل جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی بنیاد بنتا ہے۔
ریڈ میکرکے بقول ایران کے ساتھ کوئی بھی ایسا معاہدہ جس کے تحت اسے یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دی جائے، امریکہ کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن سکتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل ایران کو جوہری ہتھیارں کے حصول کے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے اس پر حملوں کی دھمکی بھی دے چکے ہیں جس کے بعد گزشتہ ماہ ترکی کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں ایرانی سفارت کاروں کے موقف میں واضح نرمی دیکھی گئی جس سے خطے میں ایک اور جنگ کے خطرات ماند پڑے ہیں۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بغداد مذاکرات کے نتیجے میں تنازع کے حل کی جانب کوئی ٹھوس پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔