واشنگٹن —
تعزیرات میں نرمی برتنے کے عوض، ایران کے جوہری پرگرام کو محدود کرنے کی غرض سے طے پانے والے سمجھوتے پر 20 جنوری سے عمل درآمد ہونے والا ہے۔
اِس بات کی تصدیق، دونوں طرف سے تعلق رکھنے والے اہل کاروں نے اتوار کے روز کی ہے۔
کئی ہفتوں تک، ماہرین اِس بات پر غور و غوض کرتے رہے ہیں کہ چھ ماہ کی مدت کے اِس معاہدے پر، جس پر نومبر میں اتفاقِ رائے ہوا تھا، کس طرح سے عمل درآمد ہوگا۔
ایران یورینئیم کی افزودگی کو پانچ فی صد تک محدود رکھے گا، اور اونچے درجےکے افزودہ یورینئیم کے ذخیرے میں کمی لائے گا؛ جب کہ، وہ اقوام متحدہ کے جائزہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی کی اجازت دے گا۔
بدلے میں، امریکہ اور یورپی یونین تعزیرات میں کمی لائیں گے، جِن کے نتیجے میں ایران کی معیشت بری طرح دباؤ کا شکار رہی ہے۔
اِن چھ ماہ کے دوران، ایران اور چھ عالمی طاقتیں، جِن میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی شامل ہیں، طویل مدتی سمجھوتا طے کرنے کے بارے میں مذاکرات جاری رکھیں گے، جِن کا مقصد اُن خدشات کو دور کرنا ہے، جِن میں کہا جاتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ، جان کیری نے کہا ہے کہ ایک جامع سمجھوتے تک پہنچنا مشکل معاملہ ہوگا، لیکن مذاکرات ہی اِس معاملے کو ’پُرامن اور دائمی طور پر‘ حل کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہیں۔
اُن کے بقول، ’ہمارے اوپر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ایک جامع سمجھوتے کے لیے بات چیت کے دوران اِس سے بھی بڑے چیلنجوں سے سابقہ پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات چیت بہت ہی مشکل نوعیت کی ہوگی؛ اور یہ بات بالکل صاف ظاہر ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ تاکہ، بین الاقوامی برادری کو اِس بات کی گارنٹی دی جا سکے کہ یہ ایک پُرامن پروگرام ہے‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ تاوقتیکہ ایران سمجھوتے پر عمل پیرا ہونے میں ثابت قدم رہتا ہے، امریکہ اور دیگر ممالک ایران کو معاشی تعزیرات کے حوالے سے مناسب نرمی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ ایسے میں جب ایران کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے، اگر امریکی کانگریس نے نئی پابندیاں لگانے سے متعلق قانون سازی کی کوشش کی، تو وہ اِسے ویٹو کردیں گے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ، اگر ایران نے سمجھوتے پر پابندی میں ناکامی دکھائی، تو امریکہ اُس کے خلاف تعزیرات میں اضافہ کرنے کے لیے تیار رہے گا۔
مغرب ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ نیوکلیئر بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام خالصتاً بجلی بنانے اور دیگر سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
اِس بات کی تصدیق، دونوں طرف سے تعلق رکھنے والے اہل کاروں نے اتوار کے روز کی ہے۔
کئی ہفتوں تک، ماہرین اِس بات پر غور و غوض کرتے رہے ہیں کہ چھ ماہ کی مدت کے اِس معاہدے پر، جس پر نومبر میں اتفاقِ رائے ہوا تھا، کس طرح سے عمل درآمد ہوگا۔
ایران یورینئیم کی افزودگی کو پانچ فی صد تک محدود رکھے گا، اور اونچے درجےکے افزودہ یورینئیم کے ذخیرے میں کمی لائے گا؛ جب کہ، وہ اقوام متحدہ کے جائزہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی کی اجازت دے گا۔
بدلے میں، امریکہ اور یورپی یونین تعزیرات میں کمی لائیں گے، جِن کے نتیجے میں ایران کی معیشت بری طرح دباؤ کا شکار رہی ہے۔
اِن چھ ماہ کے دوران، ایران اور چھ عالمی طاقتیں، جِن میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی شامل ہیں، طویل مدتی سمجھوتا طے کرنے کے بارے میں مذاکرات جاری رکھیں گے، جِن کا مقصد اُن خدشات کو دور کرنا ہے، جِن میں کہا جاتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ، جان کیری نے کہا ہے کہ ایک جامع سمجھوتے تک پہنچنا مشکل معاملہ ہوگا، لیکن مذاکرات ہی اِس معاملے کو ’پُرامن اور دائمی طور پر‘ حل کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہیں۔
اُن کے بقول، ’ہمارے اوپر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ایک جامع سمجھوتے کے لیے بات چیت کے دوران اِس سے بھی بڑے چیلنجوں سے سابقہ پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات چیت بہت ہی مشکل نوعیت کی ہوگی؛ اور یہ بات بالکل صاف ظاہر ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ تاکہ، بین الاقوامی برادری کو اِس بات کی گارنٹی دی جا سکے کہ یہ ایک پُرامن پروگرام ہے‘۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ تاوقتیکہ ایران سمجھوتے پر عمل پیرا ہونے میں ثابت قدم رہتا ہے، امریکہ اور دیگر ممالک ایران کو معاشی تعزیرات کے حوالے سے مناسب نرمی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ ایسے میں جب ایران کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے، اگر امریکی کانگریس نے نئی پابندیاں لگانے سے متعلق قانون سازی کی کوشش کی، تو وہ اِسے ویٹو کردیں گے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ، اگر ایران نے سمجھوتے پر پابندی میں ناکامی دکھائی، تو امریکہ اُس کے خلاف تعزیرات میں اضافہ کرنے کے لیے تیار رہے گا۔
مغرب ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ نیوکلیئر بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام خالصتاً بجلی بنانے اور دیگر سویلین مقاصد کے لیے ہے۔