ایران اور پاکستانی حکام کی جانب سے سرحد پر نئی ٹرانسمیشن لائن کے افتتاح کے بعد گوادر کو اضافی بجلی ملنے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ دوسری جانب سرحد پر دونوں ملکوں نے بارڈر مارکیٹ بھی کھول دی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے جمعرات کو پاکستان اور ایران کے بارڈر پر دونوں ممالک کے درمیان بجلی کی نئی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا۔
اس ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے چین، پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے مرکز سمجھے جانے والے شہر گوادر کو ایران سے دگنی بجلی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔
گوادر کی تاجر برادری کا کہنا ہے کہ اضافی بجلی کی فراہمی سے جہاں بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جاسکے گا وہیں معاشی سرگرمیوں میں مزید اضافے کی توقع ہے۔
گوادر اب تک نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ہے اور مکران ڈویژن کے اس سب سے بڑے شہر اور سی پیک میں مرکزی حیثیت رکھنے والے اس شہر کو بجلی کی فراہمی ایران سے درآمد شدہ 104 میگاواٹ بجلی سے ممکن ہوپاتی ہے۔
حکام کے مطابق شہر کو اس وقت 150 میگاواٹ سے زائد بجلی کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ اب مزید 100 میگاواٹ بجلی کی فراہم سے یہاں بجلی کی فراہمی میں کافی بہتری آئے گی جو اس سے قبل خاص طور پر موسم گرما میں انتہائی کم ہوجاتی تھی۔
گوادر کے عوام کو اس موسم میں 8 سے 10 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔
گوادر کے تاجروں کا کہنا ہے کہ بجلی کی فراہمی میں اضافے سے شہر میں کاروباری اور معاشی سرگرمیوں میں کسی حد تک اضافہ دیکھا جاسکے گا۔
گوادر چیمبر آف کامرس کے بانی صدر فیصل دشتی کہتے ہیں کہ مکران ڈویژن بالخصوص گوادر میں صنعتوں کا فروغ نہ ہونے کی بنیادی وجہ توانائی کی کمی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صنعتوں کو تو دور کی بات ہے اس وقت گوادر کے عام شہریوں کو بھی گھنٹوں طویل لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل دشتی کا مزید کہنا تھا کہ 2200 ایکڑ پر محیط گوادر فری زون اور کئی سو ایکڑ پر مشتمل گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام سے صنعتوں کے لیے جگہ تو مختص ہے۔ لیکن سرمایہ کار یہاں صنعتیں لگانے سے 20 سال سے گُریز اں رہے ہیں۔
اُن کے بقول یہاں بجلی جیسی بنیادی چیز ہی موجود نہیں تو ایسے میں صنعتیں کیسے لگائی جائیں؟
انہوں نے مزید بتایا بجلی کی فراہمی یقینی بنانے اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے قیام سے امید ہے کہ پہلے مرحلے میں سی فوڈ پراسسنگ کی صنعتیں یہاں جلد قائم کی جاسکیں گی جس سے نہ صرف لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے بلکہ پاکستان دنیا بھر میں معیاری سی فوڈ مزید بڑے پیمانے پر برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ کما سکے گا۔
اُن کے بقول اس مقصد کے لیے کئی عالمی شہرت یافتہ گروپس بھی دلچسپی ظاہر کرچکے ہیں لیکن بجلی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے منصوبوں کو عملی شکل نہیں دی جاسکی۔
دوسرے مرحلے میں بلوچستان میں پیدا ہونے والے پھلوں خاص طور پر کھجور، اورسنگِ مر مر جیسی دیگر چیزوں کی پیکجنگ، ویلیو ایڈیشن اور برآمد بھی یہیں کی بندرگاہ سے کی جاسکیں گی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان معاہدے کو رواں سال مارچ میں حتمی شکل دی گئی تھی۔ تاہم حکومت کی جانب سے اضافی بجلی کی فراہمی ممکن بنانے کے باوجود بھی لوڈ شیڈنگ برقرار رہنے کا امکان ہے۔
اُن کے بقول بجلی فراہم کرنے والے ادارے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو یہاں سے وصولی کی شرح انتہائی کم ہے جسے بڑھانے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
بارڈر مارکیٹ کا افتتاح
دونوں ممالک کے سربراہان نے پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع مند پشین بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر بارڈر مارکیٹ پلیس کا بھی مشترکہ طور پر افتتاح کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ مند-پشین بارڈر مارکیٹ پلیس ان چھ بارڈر مارکیٹوں میں سے ایک ہے جو پاک ایران مشترکہ سرحد پر تعمیر کی جائیں گی۔
یہ بازار سرحد پار تجارت کو بڑھانے، اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور مقامی کاروباروں کے لیے مواقع کی نئی راہیں کھولنے کے لیے ایک فروغ پزیر پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔
اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم گزشتہ سال تاریخ میں پہلی بار دو ارب ڈالر سے بڑھ گیا تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان یہ توقعات سے اب بھی کافی کم ہے۔
دونوں ممالک پہلی بار بغیر کسی اضافی ٹیرف یا ٹیکس کے ٹرانزٹ ٹریڈ کو آگے بڑھانے کے لیے گرین کوریڈور بنانے کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔
سرحدی منڈیوں کے ساتھ سرحدوں پر فری اکنامک زون بنانے کا منصوبہ بھی زیر بحث ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی تجارت بالخصوص ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ سے پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے۔ لیکن یہ تجارت ایران کی سرحد کے قریب آباد ہزاروں لوگوں کے روزگار کا بھی ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر سالانہ کا حجم حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بارٹر ٹریڈ میکنزم کو فعال کرنا ایک اہم قدم ہے۔ وزیر اعظم شہباز کا مزید کہناتھا کہ سرحدی منڈیاں تجارت کو فروغ دیں گی اور دونوں ممالک کی ترقی میں کردار ادا کریں گی۔
گیس پائپ لائن منصوبہ تاحال التوا کا شکار
دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے باعث ایک دہائی سے تاخیر کا شکار ہے۔
بدھ کو پاکستان کی قومی اسمبلی پبلک کی اکاؤنٹس کمیٹی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے نہ بڑھایا تو پاکستان کو 18 ارب ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔