پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔
منگل کو لاہور میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ "ہم حکومت کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے سوچ بچار کر رہے ہیں۔"
یاد رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی نے اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کے لیے نو فروری کی تاریخ مقرر کی تھی، لیکن ترکیہ اور شام میں آنے والے ہولناک زلزلے کے باعث اے پی سی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی۔
یہ اے پی سی پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد بلائی گئی تھی۔
سیاسی تفریق کے ماحول میں سماجی حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ملک کی گھمبیر صورتِ حال میں سیاسی قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ نگار زاہد حسین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر یہ رائے سامنے آ رہی ہے کہ ہر چیز کے بائیکاٹ سے وہ سیاسی تنہائی کی طرف جارہے ہیں لہذا وہ چاہتے ہیں کہ قومی سیاست سے الگ تھلگ نہ ہوا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے اور قومی اسمبلی سے استعفے دینا غلطی تھی۔
زاہد حسین کے بقول عمران خان کا خیال تھا کہ وہ عوامی طاقت کے ذریعے حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کر پائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اب صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے باوجود عام انتخابات کا فوری انعقاد نظر نہیں آ رہا۔
'حکومت پر عمران خان سے مصالحت کے لیے کوئی دباؤ نہیں'
تجزیہ نگار اے ایچ نیر کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے روایتی انداز میں فوراً ہی اے پی سی میں شرکت سے انکار کر دیا لیکن سیاسی تنہائی کو دیکھتے ہوئے وہ اس فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اے پی سی کے ایجنڈے میں دہشت گردی اور معیشت جیسے موضوعات پر بات ہونی ہے جسے دیکھتے ہوئے بھی عمران خان کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنا پڑی۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت، عمران خان کو سیاسی طور پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی اس پر مقتدر قوتوں کی جانب سے اس ضمن میں کوئی دباؤ دکھائی دیتا ہے۔
اے ایچ نیر کے بقول حکومت پر نہ تو کوئی دباؤ ہے اور نہ ہی ان کا یہ ایجنڈا ہے کہ عمران خان سے مصالحت کریں اور اگر حکومت کو موقع ملے کے وہ عمران خان کو سیاسی طور پر تنہا کرسکے تو وہ ایسا کیوں نہیں چاہے گی۔
زاہد حسین بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے پہلے انکار اور اب اے پی سی میں شرکت کے فیصلے سے حکومت کا زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی تو خواہش یہ دکھائی دیتی تھی کہ عمران خان شرکت نہ کریں تاکہ کہا جاسکے کہ قومی معاملات پر بھی پی ٹی آئی شریک نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر حکومت نے صرف رسماً عمران خان کو شرکت کی دعوت دی۔
زاہد حسین نے کہا کہ ان کی نظر میں عمران خان کے کانفرنس میں شرکت کے عندیے سے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیوں کہ یہ ایک رسمی بیٹھک ہے جس کا پالیسی پر زیادہ عمل دخل نہیں ہوگا۔
اے ایچ نیر نے کہا کہ عمران خان کا مؤقف ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت اور کالعدم جماعت کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ان کی حکمتِ عملی کامیاب تھی۔ لیکن موجودہ حالات میں کوئی اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کیوں کہ ان کے دورِ حکومت میں جیلوں سے چھوڑے جانے والے دہشت گرد ہی بعد ازاں بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو قومی رائے بن رہی ہے کہ دہشت گردوں سے بات چیت نہیں ہونی چاہیے اور فوج کی بھی وہی رائے ہے تو مصالحت کی صورت بن نہیں سکتی ہے۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی چاہے گی کہ اے پی سی میں انتخابات کے بارے بھی بات چیت ہو جو کہ عمران خان کے حکومت مخالف بیانیہ کو تقویت دے گا۔
زاہد حسین نے کہا کہ اگرچہ اے پی سی کا ایجندا دہشت گردی پر بات چیت اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے لیکن عمران خان انتخابات پر بھی گفتگو چاہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو بتایا گیا ہوگا کہ اے پی سی میں شرکت اور انتخابات کے حوالے سے اس فورم پر گفتگو سے سیاسی فائدہ ہو گا۔
اے ایچ نیر کہتے ہیں کہ عمران خان کو اندازہ ہے کہ وہ عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر وہ صوبائی اسمبلیوں میں کامیابی سے آئندہ عام انتخابات میں اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکیں گے۔
ان کے بقول انتخابات کو لے کر اور پارٹی قائدین کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں سے بچنے کے لیے عمران خان احتجاج کی طرف جانا چاہتے ہیں جس کے لیے اے پی سی ایک بہترین موقع ہے۔