پاکستان کی اہم پختون قوم پرست سیاسی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) میں کئی برسوں سے جاری تنظیمی بحران حالیہ دنوں میں شدت اختیار کرگیاہے۔ اس بحران کی ایک وجہ پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی کا افغان طالبان کے حوالے سے نرم مؤقف بھی بتائی جا رہی ہے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی جسے پی کے میپ بھی کہا جاتا ہے کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حالیہ دنوں میں پارٹی کے متعدد اہم رہنماؤں کو 'پارٹی لائن سے انحراف اور سازش' کے الزامات کے تحت پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اس اقدام کے باعث پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
محمود اچکزئی نے 10 نومبر کو پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رضا محمد رضا اور عبیداللہ بابت کی رُکنیت ختم کر دی تھی جس کے بعد پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل مختار خان یوسفزئی، خیبرپختونخوا کے صوبائی صدر خورشید کاکا جی، سینئر نائب صدر حیدر خان مومند سمیت کئی سینئرر ہنماؤں کی پارٹی رُکنیت ختم کر دی تھی۔
اچکزئی نے پی کے میپ بلوچستان اسمبلی میں اکلوتے رُکن نصراللہ زیرے کی بھی پارٹی رُکنیت ختم کر دی تھی۔
محمود خان اچکزئی نے ان رہنماؤں پر پارٹی آئین کی خلاف ورزی، اختیارات سے تجاوز اور پارٹی کو تقسیم کرنے کے الزامات کے تحت فارغ کیا تھا۔ اُنہوں نے دیگر پارٹی رہنماؤں کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ نکالے گئے پارٹی رہنماؤں سے دُور رہیں ورنہ اُن کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ہو گی۔
وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے پی کے میپ کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تو اُن کا یہ عذر تھا کہ وہ دو دسمبر کو پارٹی کے بانی عبدالصمد اچکزئی کی برسی کے موقع پر پارٹی بحران کے حوالے سے تفصیلی اظہارِ خیال کریں گے۔
دوسری جانب پارٹی سے نکالے گئے پی کے میپ کے مرکزی سیکریٹری جنرل مختار یوسف زئی نے 23 اور 24 نومبر کو بلوچستان کے شہر کچلاک میں حامی رہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں بڑی تعداد میں پارٹی کارکنوں نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں پارٹی کے حال ہی میں پراسرار طور پر انتقال کر جانے والے سینیٹر عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال کاکڑ اور رُکن نصراللہ زیرے سمیت پارٹی کے نکالے گئے باغی رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختار یوسف زئی نے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی جانب سے پارٹی کے ایگزیکٹو اراکین کے اخراج کو غیر ائینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں پارٹی کومتحداورمضبوط بنانے کے لیے 27 اور28 دسمبر کو کوئٹہ شہر میں پارٹی کی مرکزی کانگریس بلانے کا اعلان کیاہے۔
پختونخوا میپ کا پس منظر
پختونخوا میپ یوں تو پاکستان بھر کے پختونوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر پارلیمانی اوراسٹریٹ پاور کی سطح پر یہ جماعت بلوچستان کے پختون علاقوں میں ایک مضبوط جماعت سمجھی جاتی ہے۔
پارٹی کی سیاست کی ابتدا خان عبدالصمد خان اچکزئی (محمود خان اچکزئی کے والد) سے شروع ہوتی ہے جو کہ برطانوی استعمار اور پھر آزادی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں سول اور فوجی آمریت اور جاگیردارانہ سوچ کے خلاف اپنی جدوجہد کے لیے مشہور ہیں۔
البتہ ون یونٹ کی تحلیل اور چاروں صوبوں کے قیام کے وقت بلوچستان کے نام اور بلوچستان کے پختونوں کے لیے الگ صوبے کے معاملے پر اختلاف کی بنیاد پر نیپ سے الگ ہو کر پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی نامی نئی جماعت بنائی گئی۔
سن 1973 میں کوئٹہ شہر میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں عبدالصمد اچکزئی کی ہلاکت کے بعد ان کی جماعت کی سربراہی محمود خان اچکزئی نے سنبھال لی۔
سن 1989 میں محمود خان اچکزئی کی پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی اور کمیونسٹ کسان رہنما شیر علی باچا کی پختونخوا مزدور کسان پارٹی کے انضمام سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی وجود میں آئی۔
اختلافات
پارٹی رہنماؤں اورمبصرین کے مطابق پختونخوا میپ کی تشکیل کے بعد ہی پارٹی کے اندر دو طرح کے نظریات کے حامل رہنما اورکارکنان چلے آ رہے تھے۔
کوئٹہ شہر میں پختونخوا میپ سے طویل وابستگی رکھنے والے ایک رہنما کے بقول "پارٹی میں شروع سے ہی دو نظریات کے حامل افراد موجود تھے ایک طبقہ وہ تھا جو محمود اچکزئی اور اُن کے والد سے متاثر تھا جب کہ دوسرا طبقہ بائیں بازو کے نظریات کے قریب تھا۔لیکن محمود اچکزئی کی شخصیت کی وجہ سے کبھی پارٹی کے اندر اختلافات کھل کر سامنے نہیں آئے تھے۔"
پی کے میپ کی قیادت کی جانب سے رہنماؤں اورکارکنوں کو پارٹی کے اندرونی معاملات پر ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے وائس آف امریکہ سے نام شائع نہ کرنے کی شرط پربات چیت کی ہے۔
پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پختونخوا میپ میں بھی پارٹی سربراہ کے خاندان کا اثرو رسوخ زیادہ ہے مگرناقدین کہتے ہیں کہ عرصۂ دراز سے پارٹی میں متبادل قیادت سامنے لانے کی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔
کوئٹہ میں مقیم پی کے میپ کےایک رہنما کے مطابق محمود اچکزئی کے حالیہ فیصلے کو پارٹی کارکنوں میں کافی سراہا جا رہا ہے، کیوں کہ جن رہنماؤں کو پارٹی سے نکالا گیا ہے، ان کی عمریں 50 برس سے تجاوز کر چکی تھیں اور کئی 30 برس سے بھی زائد کے عرصے سے مختلف تنظیمی عہدوں پر براجمان تھے اور نوجوان قیادت کو موقع نہیں مل رہا تھا۔
البتہ پارٹی سے نکالے جانے والے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ پارٹی سربراہ نے غیر جمہوری انداز میں شوکاز دیے بغیر انہیں نکال دیا، لہذٰا اس فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔
2018 کے انتخابات میں بدترین شکست
پختون سیاسی تحریکوں کا مطالعہ کرنے والے محقق سرتاج خان کا کہناہے کہ پختونخوا میپ میں جاری بحران دراصل پاکستان میں پختون قوم پرست سیاست کے عمومی بحران کا عکس ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " بظاہر پختون قوم پرست پارٹیاں بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہیں جس کی وجہ انتخابی ناکامی ہے۔
سرتاج خان کے بقول " ملک کے پختون خطے میں تحریک کی سطح پر پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جیسی تنظیم جب کہ انتخابات کی سطح پر پاکستان تحریکِ انصاف اورجمیعت علمائے اسلام (ف) کافی آگے ہیں۔"
پی کے میپ 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان کے پختون اضلاع اور دارالحکومت کوئٹہ سے کامیاب ہوکر صوبے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اورنیشنل پارٹی کے ساتھ حکومت بنا کر صوبے کی گورنرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
البتہ یہ کامیابی پارٹی کے لیے خوشی کے ساتھ ساتھ تنظیمی اختلافات کا سبب بھی بنی جب پارٹی چیئرمین نے سینئر پارٹی رہنماؤں کو نظر انداز کر کے اپنے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بلوچستان بنوا دیا تھا۔
انہی اختلافات کے سبب 2018 کے عام انتخابات میں پارٹی کو بلوچستان کے پختون اضلاع میں جمیعت علمائے اسلام (ٖف) اورعوامی نیشنل پارٹی کے ہاتھوں بری طرح شکست کا سامنا کرناپڑا اور وہ صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
محمود اچکزئی خود کوئٹہ شہر کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 256 سے 11 ہزارکے لگ بھگ ووٹ لےکر تیسرے نمبر پر آئے جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما قاسم سوری (جوبعد میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بنے) 25 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔
خیال رہے کہ پی کے میپ سے کچھ سال قبل نکالے گئے سابق مرکزی جنرل سیکریٹری اکرم شاہ لالہ کے صاحبزادے اب محسن داوڑ کی نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے مرکزی جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔
افغان طالبان کے حوالے سے نیا بیانیہ
پختونخوا میپ دیگرپختون قوم پرست جماعتوں کی طرح گزشتہ کئی دہائیوں سے طالبان کی شدید مخالفت کرتی چلی آ رہی ہے۔
البتہ 19 اگست کو محمود اچکزئی کی اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں طالبان حکومت کے تحت منعقد ہونے والی یومِ استقلال کی تقریب میں شرکت پر پارٹی میں شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ پارٹی میں یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ کیا پارٹی نے طالبان کے حوالے سے کئی دہائیوں سے جاری بیانیہ ترک کر کے نیا مؤقف اپنا لیا ہے۔
رواں برس سات اکتوبر کو پارٹی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے محمود اچکزئی نے پختونوں سے طالبان کی افغانستان میں حکومت کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے خود کو طالبان کا وزیرِ خارجہ قرار دیا۔
بلوچستان کے سیاسی امور کے ماہر رفیع اللہ کاکڑ کا کہناہے کہ "محمود اچکزئی کا افغانستان میں طالبان کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ رابطے یا بات چیت تک کا بیانیہ تو ٹھیک ہے۔ مگربلین ڈالرسوال یہ ہے کہ ان رابطوں یا بات چیت کی شرائط کیا ہوں گی۔"
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان سے روابط رکھنے اور ان کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے میں باریک مگر بنیادی فرق ہے۔
ان کے بقول "آج یہ واضح ہے کہ طالبان ایک رجعت پسندانہ اور مطلق العنان سیاسی نظام کے حامی ہیں جہاں بنیادی شہری آزادیوں اورانسانی حقوق کے لیے جگہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جدید دنیا میں کوئی بھی مہذب ریاست یا معاشرہ ایسے سیاسی نظام کو قبول نہیں کرتا۔"
رفیع اللہ کاکڑ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کی تین دہائیوں تک مخالفت اور 2001 میں افغانستان میں امریکی حملوں کی حمایت میں ریلی نکالنے کے بعد اب محمود اچکزئی نے اپنا بیانیہ تبدیل کیا۔
اُن کے بقول اب اچکزئی اپنے کارکنوں سے یہ اُمید کر رہے ہیں کہ وہ بغیر کوئی سوال اُٹھائے طالبان کے حوالے سے اُن کے نئے بیانیے کو تبدیل کر لیں۔
محقق سرتاج خان کہنا ہے کہ پی کے میپ میں افغان طالبان اور پاکستانی ریاست یا فوج کے حوالے سے نکتہ نظر میں تبدیلی سے نظریاتی بحران شدید ہوا۔
ان کے بقول " طالبان کو قبول کرنے سے پختونخوا میپ بہت رائٹ ونگ میں چلی گئی ہے لیکن اس پالیسی سے افغانستان کے سرحد کے آرپار تاجر طبقہ کو مراعات حاصل ہوگی اور پارٹی کو پختون علاقوں میں کام کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔"
البتہ باغی گروپ میں مزدور کسان پارٹی جیسی لیفٹ کے نظریات کے نظریاتی کارکن ہیں جو افغان طالبان اور پاکستانی ریاست کے ساتھ پارٹی کے نئے رومانس کے سخت خلاف ہیں۔
پاکستان کے سرحدی شہر چمن میں سرحد پار کاروبار سے وابستہ متوکل اچکزئی محمود اچکزئی کے مؤقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کے پختون اضلاع افغانستان کے صوبے قندھار سے متصل ہے اوریہاں کے مقامی لوگوں کی بڑی تعداد سرحد سے جڑے ہوئے کاروبار سے وابستہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا "کابل میں طالبان کی حکومت کے ساتھ اچھے روابط کی وجہ سے سرحد پار کاروبار سے وابستہ بلوچستان کے پختون علاقوں کے تاجروں اورلوگوں کے بنیادی مسائل کے حل میں آسانی اورخطے میں امن قائم ہوگا۔