نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے آئندہ ماہ عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
جیسنڈرا آرڈرن نے جمعرات کو نیپئر شہر میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ وہ سات فروری کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہو جائیں گی۔
جیسنڈا کے اعلان کے وقت ان کی آنکھیں نم اور آواز بھررائی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تیسری مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے خود کو تیار محسوس نہیں کرتیں۔ ان کی جماعت کے ارکان آئندہ تین روز میں پارٹی کے نئے سربراہ کا انتخاب کریں گے اور وہ سات فروری کو اپنا عہدہ چھوڑ دیں گی۔
نیوزی لینڈ میں رواں برس اکتوبر میں عام انتخابات ہونا ہیں اور انتخابات سے قبل وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونے کے ان کے اعلان پر حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
جیسنڈا نے کہا "یہ میرا یقین ہے کہ ملک کی قیادت کرنا کسی بھی شخص کے لیے اعزاز کی بات ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ ایک بڑی ذمے داری بھی ہے۔"
نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ بحیثیت وزیرِ اعظم ساڑھے پانچ سال کا عرصہ ان کی زندگی کے اہم سال تھے اور وہ اس عہدے سے اس لیے سبکدوش ہو رہی ہیں کہ کیوں کہ ایک وزیرِ اعظم پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔"
جیسنڈرا آرڈرن نے 2017 میں محض 37 برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم منتخب ہو کر دنیا کی کم عمر ترین خاتون سربراہِ حکومت ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ آرڈن اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بدولت 2020 میں دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔
آرڈرن نے وزارتِ عظمیٰ کے برسون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ میری زندگی کے سب سے زیادہ پورے ساڑھے پانچ سال رہے ہیں۔ میں اس لیے جا رہی ہوں کیوں کہ اس طرح کی مراعات یافتہ ملازمت کے ساتھ ایک بڑی ذمہ داری آتی ہے۔"
آرڈرن نے کہا کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے فیصلے سے متعلق اپنی جماعت کے ارکان کو آگاہ کر دیا تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہو رہی ہیں لیکن وہ اپریل تک پارلیمنٹ کی رکن رہیں گی تاکہ ان کی نشست پر ضمنی انتخاب کی ضرورت پیش نہ آئے۔
واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل جیسنڈرا آرڈرن کی لیبر پارٹی کو سابق ایوی ایشن ایگزیکٹو کرسٹوفر لکسن کی جماعت نیشنل پارٹی کا چیلنج درپیش ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق گزشتہ برس دسمبر تک لیبر پارٹی کو 33 فی صد عوام کی حمایت حاصل تھی جس کے مقابلے میں نیشنل پارٹی کے پاس 38 فی صد عوامی حمایت تھی۔
گزشتہ ماہ نیشنل پارٹی کے سربراہ نے جیسنڈرا آرڈرن پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ کے عوام محسوس کر رہے ہیں کہ ملک غلط سمت جا رہا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کچھ کام نہیں کر رہی۔
نیوزی لینڈ کے ووٹرز ملک کی معاشی صورتِ حال پر فکر مند ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران ملک میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مارچ 2019 میں سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد وزیرِ اعظم جیسنڈرا آرڈرن کے بروقت فیصلوں اور متاثرہ مسلم کمیونٹی سے اظہارِ یکجہتی کے ان کے انداز نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی تھی جہاں انہیں خوب سراہا گیا۔
اس سانحے میں ایک شخص نے دو مساجد میں گھس کر 51 افراد کو اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب مساجد میں جمعے کی نماز کی تیاری کی جا رہی تھی۔
اس سانحے کے بعد وزیرِ اعظم آرڈرن نے ملک میں آٹومیٹک گنز پر پابندی عائد کر دی تھی۔
کرونا وبا کے دور میں مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سرحدیں بند کر کے سخت پابندیوں کے نفاذ جیسے فیصلوں کے نتائج نے بھی جیسنڈرا آرڈرن کی مقبولیت میں اضافہ کیا تھا۔
جیسنڈرا پہلی خاتون وزیرِ اعظم تھیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی کمسن بچی کے ساتھ شرکت کی۔
ادارتی نوٹ: اس خبر میں جیسنڈرا آرڈرن کو سہواً سربراہِ مملکت لکھ دیا گیا تھا جس کی اب تصحیح کر دی گئی ہے۔