امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے حکومتی حلقوں میں پاکستان کی معاشی صورتِ حال موضوعِ بحث ہے اور واشنگٹن اسلام آباد کو 'معاشی طور پر پائیدار حالت' میں دیکھنا چاہتا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کے روز ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستانی معیشت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک چیلنج ہے جس سے ہم واقف ہیں اور میں جانتا ہوں کہ پاکستان آئی ایم ایف اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ اس پر کام کر رہا ہے۔"
ترجمان نے کہا کہ جہاں تک ہو سکتا ہے امریکہ اپنے پاکستانی پارٹنر کی بھرپورحمایت کرتا ہے لیکن بالآخر، یہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان کی بات چیت ہے۔
امریکہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب پاکستان کی ابتر معاشی صورتِ حال کے باعث دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور ملک میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پوری کرنے کے لیے منی بجٹ لانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت اضافی ٹیکسز اور لیوی عائد کر کے 200 ارب روپے جمع کرنا چاہتی ہے جس کا لامحالہ اثر عام افراد پر ہی پڑے گا۔
پاکستان کو درپیش حالیہ معاشی بحران پر با ت کرتے ہوئے نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ ان (عالمی مالیاتی اداروں سے)بات چیت میں اکثر تکنیکی مسائل شامل ہوتے ہیں، اکثر اوقات ان کو امریکی محکمہ خزانہ اور ہمارے پاکستانی شراکت داروں کے درمیان حل کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول، امریکی محکمۂ خارجہ اور خزانہ میں پاکستان کا میکرو اکنامک کا استحکام ایک بحث کا موضوع ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں 74 فی صد اضافے کی سفارش کر رکھی ہے جس پر وفاقی حکومت کی منظوری نہ ملنے کی صورت میں بھی یہ فیصلہ 40 روز بعد لاگو ہو جائے گا۔
معاشی ماہرین کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسز عائد کرنے کے معاملے پر حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔
آئی ایم ایف جائزہ کمیشن کا دورۂ پاکستان آئندہ ماہ متوقع ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی۔
پاکستان کو "اسٹاف لیول ایگریمنٹ" کی صورت میں مزید ایک ارب ڈالر کی نئی قسط جاری ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اسی صورت میں دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی پاکستان کو قرض مل سکے گا۔
سیاسی صورتِ حال کے باعث پاکستان نے آئی ایم ایف کو کرائی گئی یقین دہانیاں پوری نہیں کی تھیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا منی بجٹ لانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔