پیرس حملوں کے بعد عسکریت پسند گروپ داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد بنانے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف فوجی طاقت کا استعمال کافی نہیں ہوگا، بلکہ سیاسی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیئے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں اسد حسن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر، واشنگٹن میں مقیم تجزیہ کار، زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ داعش بنیادی طور پر شام اور عراق کے متصل علاقوں میں ریاست قائم کرنے کی خواہش مند ہے۔ لیکن، اس کے اقدامات کا دائرہ پھیل رہا ہے، جس سے پوری دنیا کو تشویش ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کو مل کر اس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔
پاکستان کے سابق سکریٹری جنرل امور خارجہ، اکرم ذکی کا کہنا تھا کہ داعش کے پیدا ہونے کے محرکات پر بھی غور کیا جانا چاہیئے۔
انقرہ میں موجود صحافی اور ترک ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستہ براڈکاسٹر، فرقان حمید نے کہا کہ ترکی داعش کے خلاف کارروائی میں مرکزی حیثیت حاصل کر رہا ہے اور ماضی میں تذبذب کا شکار رہنے والا ترکی، یورپی یونین، نیٹو اور امریکہ سے جواباً مراعات اور تعاون کی یقین دہانیوں کے بعد صف آرا ہے۔
ترکی میں ہی موجود، آفتاب مالگوری کا کہنا تھا کہ داعش براہِ راست ترکی کے لیے خطرہ نہیں ہے، کیونکہ ہر گروپ ترکی کی حدود میں جن دھڑوں کو نشانہ بناتا ہے، وہ ترک حکومت کے مخالف سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ کُرد باغی یا پی کے کے سے وابستہ جنگجو۔
مزید تفصیلات اس آڈیو رپورٹ میں سنیئے: