حکومتِ پاکستان نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق کمیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہوں گے۔
کمیشن آڈیو لیکس کے معاملے کی 30 روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ وفاقی حکومت کو جمع کرائے گا جب کہ اٹارنی جنرل کمیشن کی معاونت کریں گے۔
کمیشن کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن پر 19 مئی کی تاریخ درج ہے جب کہ نوٹی فکیشن میں کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) بھی شامل ہیں۔
کمیشن سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور وکیل کی مبینہ آڈیو، مخصوص بینچز کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے پیش کیے جانے سے متعلق مبینہ آڈیو کی تحقیقات کرے گا۔
تین رکنی تحقیقاتی کمیشن جن معاملات کی تحقیقات کرے گا ان میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ساس اور وکیل کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو سمیت سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور ایک نامور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق مبینہ آڈیو کی تحقیقات شامل ہیں۔
حال ہی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی تھی۔ اس کے علاوہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کی سپریم کورٹ کےحاضر سروس جج سے متعلق ایک وکیل سے ہونے والی مبینہ آڈیو لیک بھی وائرل ہوئی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن سابق چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق مبینہ آڈیوز اور سابق وزیرِاعظم اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو کی آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات کرے گا۔
سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق تحقیقاتی کمیشن فوری طور پر اپنے کام کا آغاز کرے گا اور اگر اسے مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت تحقیقات کے لیے مزید وقت دے گی۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کا اختیار ہے کہ وہ کمیشن تشکیل دے جس کا نوٹی فیکیشن کمیشن میں شامل اراکین کو بھی جاتا ہے جس کے مطابق وہ کام کرنے کے پابند ہیں۔
مقامی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے بات کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر کمیشن میں شامل رکن کسی وجہ سے کمیشن کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو وہ حکومت کو آگاہ کر سکتا ہے۔
وزیرِ قانون کے مطابق حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو کمیشن کا سربراہ بنایا ہے اور کمیشن کو اختیار ہو گا کہ اگر وہ سمجھتا ہے کہ مزید آڈیو لیکس پر کارروائی ہونی چاہیے تو مزید آڈیوز کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔