اگر ہم امریکی ادب پر نظر ڈالیں تو یہ ایسے تنہا رومانوی کرداروں سے بھرا نظر آتا ہے جو سب سے الگ تھلگ اپنی دنیا میں گم ،اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارتے انتہائی مطمئن دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن کیا تنہائی اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی امریکن فلموں میں یا آرٹ کی دیگر فارمز میں نظر آتی ہے ؟
اس کا جواب ہمیں امریکی سرجن جنرل وویک مورتھی کی رپورٹ میں ملتا ہے ۔ انہوں نے اس ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ امریکہ میں ،ہر دو بالغ افراد میں سے ایک تنہائی کا شکار ہے اور یہ تنہائی، سگریٹ نوشی سے زیادہ مہلک ہو سکتی ہے اور ذہنی صحت کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے،معاشرے کے پرانے انسٹی ٹیوشنز کے بتدریج خاتمے،گرجا گھر وں میں لوگوں کی کمی اور رشتے دارروں کے ساتھ ٹوٹتے ہوئے بندھن کو ذمےدار قرار دیا ۔
اگر حالیہ تناؤ کی بات کی جائے تو اس کی وجہ وویک مورتھی ،لوگوں کی زندگیوں میں سوشل میڈیا اور ورچوئل ایکٹویٹیز کے بڑھتے ہوئے عمل دخل اور 9/11 کے بعد کی صورت حال کو قرار دیتے ہیں جس پر کووڈ نائینٹین نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔
وویک مورتھی کی رپورٹ کے مطابق ،کووڈ کے دوران لوگوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ میل ملاپ کو نہ ہونے کے برابر کر دیا اور خاص طور پر 15 سے 24 سال کے نوجوانوں نے 2020 کے دوران اپنے دوستوں کے ساتھ اوسطاً 20 منٹ گزارے جو دو دہائیاں قبل روزانہ ایک گھنٹہ کے مقابلے میں بہت کم تھا۔
یہی دوری ڈپریشن کو ہوا دینے کا سبب بن رہی ہے ۔ امریکہ میں بالغوں میں ڈپریشن کی شرح نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ گیلپ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 18 فیصد یعنی 6 میں سے 1 سے زیادہ امریکی ڈپریشن کا شکار ہے ، خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین میں ڈپریشن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 18 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً 25 فی صد بالغوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں ۔
ایسپین انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ اکیلے لوگ ممکنہ طور پر دیگر افراد کی نسبت زیادہ بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور جلد مر جاتے ہیں۔
اگرچہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ تنہائی کا شکار ہیں ،لیکن امریکہ میں 19 ویں صدی کے اوائل میں امریکی زندگی میں لفظ "تنہائی" کا استعمال اس کے موجودہ تناظر میں ہونا شروع ہوا،جس میں اسے کسی شخص کی انفرادیت ،اس کی الگ حیثیت اور پہچان اور پرائیویسی کے پس منظر میں دیکھا جانے لگا ۔ اسی بنا پر بہت سے امریکی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا امریکی معاشرہ اس انفرادیت پر زور دیتا ہے جو لوگوں کے درمیان فاصلوں کو بڑھا رہی ہے ؟کیا یہ اکیلے پن اور بیگانگی کو ہوا دینا نہیں ہے ؟
ہاورڈ یونیورسٹی نے اسی موضوع پر اپنے ایک سروے میں لکھا ہے کہ ہمیں ایک ایسے خیال کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے جو ہماری اور بہت سی دیگر عظیم مذہبی روایات کا مرکز ہے اور وہ یہ کہ ہمیں اپنے علاوہ اپنے آس پاس کے لوگوں کا بھی سوچنا ہے اور خاص طور پر وہ لوگ جنہیں ہماری زیادہ ضرورت ہے ۔ امریکہ کی نوجوان نسل بھی اس پر اصرار کر رہی ہے کہ ذہنی صحت کو قومی گفتگو کا حصہ بنایا جائے اور کمیونٹیز کے ساتھ میل ملاپ کو بڑھایا جائے ۔
نفسیات اور نیورو سائنس کی پروفیسرڈ اکٹر جولیان ہولٹ لنسٹاد ، برگھم ینگ یونیورسٹی میں طویل مدتی صحت پر سماجی تعلقات کے اثرات کا مطالعہ کر رہی ہیں،وہ فوربز میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں کہ یہ جاننا مشکل ہے کس کو کتنا خطرہ ہے اور اس کی مدد کیسے کی جائے، لیکن ایک آپشن ہمیشہ موجود رہتا ہے اور وہ ہے لوگوں کے ساتھ تعلق اور میل ملاپ بنائے رکھنا ۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)