کراچی کا انتخابی افق عام انتخابات کے بہت قریب ہونے کے باوجود ابھی تک ’بے رنگ‘ نظر آرہا ہے۔ انتخابی سرگرمیاں روایت کے برخلاف کم ہیں اور ان میں 'کھوکھلا پن‘ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
شہریوں اور سیاسی حلقے حیرانی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ جو کچھ تھوڑی بہت سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں اور گہماگہمی ہے بھی تو وہ صرف اسی وقت نظر آتی ہے جب دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والی ’مہمان جماعتوں‘ کی سیاسی شخصیات شہر کے دورے کرتی ہیں۔
رواں عشرے میں شہباز شریف، عمران خان اور خادم حسین رضوی کی کراچی آمد کے موقع پر تھوڑی بہت انتخابی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں۔ لیکن کراچی سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ابھی تک کوئی رنگ نہیں جمع سکی ہیں۔ بیشتر علاقوں میں اب تک یا تو انتخابی دفاتر قائم ہی نہیں ہوسکے یا جہاں یہ دفاتر بنے بھی ہیں تو وہ روایتی انداز کی گہما گہمی سے عاری ہیں۔
دوسرے صوبوں سے آنے والے سیاسی رہنماؤں کا استقبال بھی جس انداز سے کیا گیا وہ بھی بے رنگ اور پھیکا پھیکا ہی نظر آیا۔ ان میں زیادہ تر وہی کارکن نظر آئے جو ان کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔
پرامن کراچی، سب کا کراچی۔۔۔
سندھ کی سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ’پرامن کراچی، سب کا کراچی، کراچی کی ترقی سب کے لیے‘ کے نعرے کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری ہے۔ لیکن شہریوں کا کہنا ہے کہ پی پی پی کی تمام توجہ اندرونِ سندھ مرکوز ہے۔ یہ صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہے، اسے کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کو بڑھانا چاہے تھا۔ مگر وہ سارے شہر کو نظر انداز کرکے اپنی روایتی گڑھ لیاری پہنچی جہاں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے نے باقی جماعتوں کو مزید محتاط کردیا ہے۔
شہریوں کی اکثریت کو یہ بھی شکایت ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لمبی چوڑی ریلی لے کر سندھ اور پاکستان کے دوسرے شہروں کے دورے پر نکل گئے جبکہ کراچی کے حلقوں میں کھڑے ہونے والے امیدوار ابھی تک ان کی حلقے میں آمد کے منتظر ہیں۔
پی پی کی قیادت نے اس پہلو پر بھی بھرپور توجہ نہیں دی کہ اس بار کے انتخابات میں اسے کراچی سے ہی سب سے بڑا سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ آیا ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایک سوال پر پی پی پی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی کا کہنا تھا، "لیاری بھٹو خاندان کا دوسرا گھر ہے۔ بلاول لیاری کے جس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں اسی سے ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو، والدہ بے نظیر بھٹو اور والد آصف علی زرداری بھی الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں۔۔۔ اب بلاول کی باری ہے۔"
’کراچی کو کراچی کا حق دلوائیں گے‘
پاکستان تحریکِ انصاف کا نعرہ ’کراچی کو کراچی کا حق دلوائیں گے‘ ہے۔ اس کے سربراہ عمران خان گزشتہ روز کراچی پہنچے تھے اور بدھ کو بھی یہیں مقیم رہیں گے۔ اس دوران انہوں نے کچھ حلقوں کا دورہ کیا، مخالفین پر اسی انداز سے تنقید کی جو ان کا خاصا ہے لیکن کراچی کے شہری بہت سے وعدوں کے باوجود ان پر یقین کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔
بیشتر شہریوں کو شکایت ہے کہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں کراچی سے ریکارڈ ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ لے کر بھی کچھ نہیں کیا تو اب عوام کا ان سے امیدیں لگانا ’دیوانے کا خواب‘ ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ عمران خان کراچی میں جس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں جلسہ کریں گے اور کراچی پیکج کا اعلان کریں گے۔۔۔مگرکب؟ یہ انہوں نے نہیں بتایا۔
’کراچی کا امن بحال کیا۔۔ اب کراچی کی روشنیاں واپس لائیں گے‘
پاکستان مسلم لیگ نون نے کراچی کے لیے جو نعرہ لگایا ہے وہ ہے، ’کراچی کا امن بحال کیا۔۔ اب کراچی کی روشنیاں واپس لائیں گے۔' لیکن کراچی کے کچھ نظریاتی سوچ رکھنے والے افراد نواز شریف سے سخت نالاں ہیں۔
کراچی کے ایک شہری نے وی او اے سے وی او اے سے گفتگو میں کہا، "نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن اپنے ہی ’عمل‘ کے 'ردِ عمل‘ کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ غور کریں تو بہت سی قدریں مشترک نظر آئیں گی۔ جو کچھ انہوں نے کیا آج ان کے ساتھ بھی وہی ہورہا ہے۔"
اگرچہ کراچی سے قومی اسمبلی کی 21 اور صوبائی اسمبلی کی 44 نشستوں کے لیے ہر جماعت نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں اور مستقبل کے وزیرِ اعظم بننے کے تین خواہش مندوں کا میدانِ انتخاب بھی یہی شہر ہے، لیکن اس کے باوجود شہر کی دیواریں روایتی الیکشن پوسٹرز، بینرز، پینافلیکس اور ہورڈنگز سے خالی ہیں۔ وہ انتخابی گہماگہمی بھی اس بار نظر نہیں آرہی جو اب تک کے انتخابات میں نظر آتی رہی ہے۔
کسی بھی جماعت نے انتخابات کے اعلان کے بعد سے اب تک کوئی بڑا جلسہ یا ریلی منعقد نہیں کی۔ نہ ہی کارنر میٹنگز ہوتی نظر آرہی ہیں۔ حالانکہ انتخابات کا اعلان ہونے سے پہلے پی پی پی، پی ٹی آئی، متحدہ اور پی ایس پی سمیت کئی جماعتوں نے اپنی اپنی اسٹریٹ پاور دکھانے کے لیے جلسے جلوس منعقد کیے تھے۔ مگر ان دنوں تمام جماعتیں ’ٹھنڈی‘ پڑی نظر آرہی ہیں۔
اے این پی کا تو ایک بھی مرکزی رہنما اب تک کراچی کا رخ نہیں کرسکا حالانکہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں ان کا خاصا ووٹ بینک موجود ہے۔
کئی مقامی سیاسی رہنماؤں نے وی او اے سے گفتگو میں کہا ہے کہ کئی عشروں تک کراچی پر حکمرانی کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ میں انتشارکے بعد نون لیگ اور پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں کراچی کی نشستوں پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں اور انہیں امید ہے کہ ایم کیو ایم کا انتشار انہیں انتخابات میں فائدہ پہنچائے گا۔