پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی حکومت نے توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے سرکاری ملازمین کو جمعے کے روز گھروں سے کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
صوبائی حکومت پرامید ہے کہ ہفتے میں ایک روز ملازمین کے گھروں سے کام کرنے کے عمل سے بجلی اور پیٹرول کی بچت ہو گی۔
صوبائی وزیرِ خزانہ تیمور خان جھگڑا کہتے ہیں کہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو دیکھتے ہوئے ملازمین کے گھروں سے کام کرنے کی پالیسی کا فیصلہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تیمور جھگڑا نے بتایا کہ دنیا بھر میں پرائیوٹ سیکٹرز کے ملازمین اپنے طریقے سے گھروں سے کام کر رہے ہیں اور ان کی حکومت نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پبلک سیکٹرز ملازمین کے لیے پالیسی تشکیل دی جائے۔
ان کے بقول، "صوبے میں اس وقت چھ لاکھ سرکاری ملازمین ہیں اگر ان میں سے آدھے بھی گھروں سے کام کریں تو سالانہ دو سے پانچ ارب روپے کی بچت کی جا سکتی ہے اور یہ حکومت کے لیے بڑی بچت ہو گی۔"
صوبائی وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ حکومت ان سرکاری محکموں کی نشاندہی کرے گی جہاں ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کی اجازت دی جائے گی البتہ پولیس، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں معمول کے مطابق کام ہو گا۔
وفاقی حکومت نے بھی توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے حال ہی میں سرکاری محکموں میں ہفتے کی چھٹی بحال کرتے ہوئے ملازمین کے فیول الاؤنس میں 40 فی صد کی کٹوتی کی ہے۔
واضح رہے کہ موسم گرما کے دوران پاکستان میں بجلی کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب 27 ہزار میگاواٹ اور پیداوار 20 ہزار میگاواٹ ہے۔ اس طرح بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے مزید سات ہزار میگاواٹ کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں میں گھنٹوں بجلی کی بندش کا سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں بلکہ کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ طلب اور رسد کا فرق اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایندھن کی قیمتوں میں کمی نہیں آ جاتی۔ مرکز میں رواں برس اپریل میں برسرِ اقتدار آنے والی مخلوط حکومت توانائی بحران کی وجہ سےشدید تنقید کی زد میں ہے۔