کراچی کی ایک سیشن کورٹ نے ایک سرکاری یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کو خاتون کو ہراساں کرنے سمیت تین الزامات ثابت ہونے پر مجموعی طور پر آٹھ سال قید کی سزا اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ہے۔
ضلع شرقی کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن خالد حسین شاہانی نے متاثرہ خاتون کی 2016 میں دائر درخواست کا فیصلہ سنایا۔
جامعہ کے شعبۂ نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان کامرانی پر الزام تھا کہ انہوں نے کراچی کی ایک نجی جامعہ گرین وچ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک خاتون لیکچرار کی جعلی اور قابلِ اعتراض تصاویر ان کے نام پر سوشل میڈیا پر پیج بنا کر اپ لوڈ کی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان خاتون کو ہراساں بھی کیا تھا۔
جامعہ کراچی کے پروفیسر کے اس فعل پر خاتون نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں مئی 2015 میں درخواست دائر کی تھی۔ ایف آئی اے نے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد ملزم کو 2016 میں گرفتار کرکے کیس عدالت میں دائر کیا تھا۔
مقدمے کے اندراج کے بعد پروفیسر ڈاکٹر فرحان کامرانی تین سال تک جیل میں رہے۔ بعد ازاں ان کو ضمانت ملی۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا اور یہ فیصلہ بدھ کو سنایا گیا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ ملزم پر خاتون کے فیس بک پر جعلی پیجز بنانے کا الزام ثابت ہوا ہے۔ جس پر ملزم کو تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فرحان کامرانی کو خاتون کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے جرم میں بھی دو سال قید کی سزا اور 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
اسی طرح ملزم کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے تحت بھی جرم ثابت ہونے پر تین سال قید بامشقت سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کی کوئی ویڈیو یا تصویر اسے نقصان پہنچانے کی غرض سے پھیلانے پر پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔جب کہ جرمانہ ادا نہ کرنے پر ملزم کو مزید ایک ماہ قید بھگتنا ہو گی۔ ملزم کی تینوں جرائم میں سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی۔
کیس کی پیروی کرنے والے ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سائبر کرائمز سے متعلق اگرچہ شکایات کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے۔ البتہ اب بھی اس بارے میں عوام میں شعور کم ہے۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس بارے میں قانون کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ کام قانون ساز اداروں کا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ میں اب بھی صرف تین قسم کے جرائم ہی تحقیقاتی ایجنسی فوری مقدمہ درج کرسکتی ہے۔ ان جرائم میں سائبر دہشت گردی، لوگوں بشمول بچوں کی شائستگی کے خلاف تصاویر یا ویڈیوز جاری کرنا یا بھیجنا شامل ہے۔
صارفین کے ڈیجیٹل حقوق پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن’ (ڈی آر ایف) کی رواں سال فروری میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق فاؤنڈیشن کی سائبر اسپیس میں ہراساں کرنے کے خلاف قائم کردہ ہیلپ لائن کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 70 فی صد سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔
فاؤنڈیشن کے جاری اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کیسز بلیک میلنگ اور بھتہ خوری سے متعلق تھے۔ جو کُل واقعات کا 33 فی صد بنتے ہیں۔ ان میں اکثر کیسز میں فرد کی ذاتی معلومات، تصاویر یا نفسیاتی جوڑ توڑ کا استعمال کرکے ڈرانے دھمکانے یا کوئی مطالبہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس کے بعد 23 فی صد شکایات کا تعلق ہیکنگ سے بتایا جاتا ہے جس میں لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے فرد کی معلومات جیسا کہ تصاویر وغیرہ کا استعمال کیا گیا۔