کویت نے 10 سال بعد پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا پروگرام بحال کردیا ہے جس کے بعد کویت میں پاکستان کی افرادی قوت میں اضافے کی توقع کی جارہی ہے۔
پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا کی بحالی کا فیصلہ کویت کے وزیراعظم شیخ صباح خالد الحامد الصباح اور پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کی ملاقات میں ہوا تھا۔
سمندر پار روزگار سے متعلق ریکروٹنگ ایجنٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان سے کویت جانے والوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن وہ سب کے سب پروفیشنلز ہیں۔ اس کے علاوہ کویت میں افرادی قوت بھجوانے کے مواقع تو ہیں لیکن اس کے لیے مارکیٹ کا جائزہ لینا ہوگا۔
ان کے مطابق کویت میں پیرامیڈیکس اور آئل فیلڈز میں کام کرنے والے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔
دس سال بعد بحال ہونے والے ویزہ پروگرام کے تحت پاکستان اور کویت کے درمیان فیملی اور بزنس ویزا بھی فوری بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پروگرام کے تحت میڈیکل اور آئل فیلڈ میں ٹیکنیکل ویزہ پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ خلیجی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اب آن لائن ویزہ لے کر کویت آسکیں گے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پاکستانی خاندانوں اور کاروباری طبقے کو کویتی ویزہ بندش سے بے پناہ مسائل درپیش تھے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان سے حالیہ دنوں میں چار سو ڈاکٹرز کو کویت میں ملازمتیں دی گئی ہیں اوریہ ڈاکٹر کویت روانہ ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس برس سے ویزہ پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ کا نقصان ہورہا تھا۔ پاکستان میں افرادی قوت بڑی تعداد موجود ہے جسے خلیجی ممالک بھجوایا جا سکتا ہے۔
’کویت کی مارکیٹ کا جائزہ لینا ہوگا‘
’اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن‘ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کویت میں پاکستانیوں کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اس وقت وہاں پیرامیڈیکس اور نرسز کی شدید قلت ہے۔ یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے پاکستان سے تربیت یافتہ عملہ بھجوایا جاسکتا ہے۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حوالے سے دو سال سے کام جاری تھا۔ کویت میں نرسز اورطبی عملے کی طلب پوری کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے حالیہ دنوں میں 12 سو کے قریب ملازمین کویت روانہ ہوئے ہیں۔ پاکستان اگر کویت میں ملازمتیں چاہتے ہیں تو یہ پیشِ نظر رہے کہ وہاں میڈیکل کے ساتھ ساتھ مکینکل کاموں کے ماہرین کی بڑی تعداد کی ضرورت ہوگی۔اس لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ تربیتی ادارے اس طلب کو ذہن میں رکھ کر تیاری کریں۔
سمندر پار ملازمت کے مواقع سے متعلق کام کرنے والے ریکروٹنگ ایجنٹس ایسویسی ایشن کے اسد کیانی کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برسں میں ہم صرف سعودی عرب کے لیے چار سے پانچ لاکھ افراد کو بھجواتے رہے ہیں لیکن حالیہ عرصہ میں کرونا کی وجہ سے بہت سی مشکلات سامنے آئی ہیں۔
اسد کیانی کا کہنا تھا کہ کویت کی مارکیٹ کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کیوں کہ اکثر کمپنیاں صرف ماہر افراد کو ہی رکھنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں ریکروٹنگ ایجنٹس ایسویسی ایشن کا ایک وفد جلد کویت کا دورہ کرے گا تاکہ وہاں کی مارکیٹ کا جائزہ لیا جاسکے۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے مطابق پابندی کے دوران بھی خصوصی اجازت ناموں کے تحت افرادی قوت پاکستان سے کویت جارہی تھی۔
تاہم، پاکستان سے کویت جانے والے افراد کی تعداد بیرون ملک بھجوائی جانے والی مجموعی افرادی قوت کا صرف ایک اعشاریہ نو فی صد تھا۔ لیکن اس معاہدے کے بعد امکان ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہوگا۔
زرمبادلہ اور پاکستان کی معیشت
پاکستان کی آمدن کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی ملازمین بھجواتے ہیں۔ رواں سال بیرون ملک سے آنے والے اس زرمبادلہ میں اضافہ ہوا ہے اور اب تک ایک سال کے دوران پاکستانیوں نے مختلف ممالک سے 23 ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ پاکستان بھیجا ہے۔
پاکستان میں آنے والے زرمبادلہ کا بڑا حصہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے پاکستانیوں نے بھیجا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت کو درپیش چیلینجز کے تناظر میں بات کرتے ہوئے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ پاکستان بیرون ملک سے زرمبادلہ بھیجنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے چل رہا ہے۔