برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے گرمیوں کی چھٹیوں پر گئی پارلیمان کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں لندن میں گزشتہ تین روز سے جاری فسادات اور برطانیہ کے دیگر حصوں میں ہونےو الے پر تشدد واقعات پر تبادلہ خیال کیاجائے گا۔
اس سے قبل وزیرِاعظم کیمرون لندن میں جاری حالیہ برسوں کے بدترین فسادات سے نمٹنے کے لیے اپنا دورہ اٹلی مختصر کرکے وطن واپس پہنچے تھے۔
ادھر پیر کی شب مسلسل تیسرے روز بھی لندن کے کئی نواحی علاقوں میں پولیس اور نوجوان مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں جن کے دوران کئی عمارتوں، گاڑیوں اور بس اسٹاپس کو نذرِ آتش کردیا گیا۔
وزیرِاعظم کیمرون نے فسادات میں ہونے والی تباہی اور عمارات نذرِ آتش کیے جانے کو "مریضانہ عمل" قرار دیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ لندن میں تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد منگل کو 6 ہزار سے بڑھا کر 16 ہزار کردی جائے گی۔
ادھر انتظامیہ نے حیرت انگیز قدم اٹھاتے ہوئے انگلینڈ اور نیدرلینڈز کے درمیان بدھ کو ہونے والا فٹ بال میچ بھی فسادات کے پیشِ نظر منسوخ کردیا ہے۔
دریں اثناء تشدد کی تازہ لہر نے برطانیہ کے کم از کم تین دیگر شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور پولیس کے مطابق برمنگھم، لیورپول اور برسٹل میں جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات پیش آئے ہیں۔
یاد رہے کہ لندن میں تشدد کے حالیہ سلسلے کا آغاز گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اس وقت ہوا تھا جب پولیس نے معاشی طور پر پسماندہ نواحی علاقے ٹوٹنہم میں ایک 29 سالہ نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
نوجوان کے قتل کے خلاف ہفتہ کو ہونے والے ایک پرامن مظاہرے کے شرکاء اچانک تشدد پر اتر آئے تھے اور انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کرنے کے علاوہ دکانوں کی شیشے توڑ دیے تھے جبکہ کئی کاروں اور بسوں کو آگ لگادی تھی۔
لندن کے کئی رہائشیوں کا موقف ہے کہ حالیہ فسادات شمالی لندن کی پسماندہ صورتِ حال بشمول علاقے میں بے روزگاری اور سرکاری سہولیات کی ناکافی فراہمی پر پائے جانے والے عوامی غصہ کا نتیجہ ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ فسادات میں ملوث ہونے کے شبہ میں اب تک 334 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جن میں سے 68 پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔ جھڑپوں میں 35 پولیس افسران بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں تین وہ اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں مظاہرین کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران ایک گاڑی نے کچل دیا تھا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق تین گرفتار شدگان پر ایک پولیس افسر کو عمداً قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
نائب وزیرِاعظم نکِ کلیگ نے پرتشدد واقعات کو "غیرضروری"، "موقع پرستی" اور "قطعی طور پر ناقابلِ قبول" قرار دیا ہے۔ جبکہ وزیرِداخلہ تھریسا مے نے فسادات میں ملوث افراد کو جرائم پیشہ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔
واضح رہے کہ ٹوٹنہم کے علاقے میں کئی اقلیتی نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر ہیں اور یہاں نسلی بنیادوں پر کشیدگی کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔