پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تلاشی نہ دینے پر پولیس کی فائرنگ سے ایک 40 سالہ شخص ہلاک اور گاڑی میں موجود ان کے دوست زخمی ہو گئے۔
پولیس حکام نے تین اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا ہے اور تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
جمعرات کی رات کراچی کینٹ کے رہائشی نبیل ہود بھائے اپنے دوست کے ساتھ ڈیفینس کے علاقے سے گزر رہے تھے جب پولیس اہلکاروں نے اسنیپ چیکنگ کے دوران ان کی گاڑی کو روکا۔
پولیس اہلکاروں نے تلاشی کی غرض سے گاڑی کی اندرونی لائٹ کھولنے کا کہا جس پر مبینہ طور پر نبیل نے گاڑی بھگا دی۔ نبیل کے ساتھ سوار ان کے دوست سیّد رضا امام کے کہنے کے باوجود بھی انہوں گاڑی نہیں روکی جس پر پولیس نے ان کا پیچھا کیا۔
فاطمہ جناح روڈ پہنچنے پر پولیس نے ڈرائیونگ سائیڈ پر گولیاں چلائیں جس سے نبیل اور سیّد رضا زخمی ہو گئے۔ لیکن پولیس اہلکار زخمیوں کی مدد کرنے کے بجائے موقع سے فرار ہو گئے جب کہ اس دوران نبیل ہودبھائے دم توڑ گئے۔
نبیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا خاندان بیرونِ ملک مقیم ہے اور وہ یہاں تجارت سے وابستہ تھے۔
کراچی کے ضلع جنوبی کے ایس ایس پی شیراز نذیر نے کہا ہے کہ یہ واقعہ بظاہر پولیس اہلکاروں کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔
ان کے بقول پولیس نے تعاقب کرتے ہوئے گاڑی کے قریب پہنچ کر سیدھی گولیاں چلائیں اور فائرنگ کے بعد کسی کو اطلاع بھی فراہم نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی میں بیٹھے افراد نے مزاحمت کی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اسلحہ ملا ہے۔ اس کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کی اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو مدد کرنے کے بجائے وہاں سے فرار ہو گئے۔
ایس ایس پی کے بقول حکام نے کارروائی کرتے ہوئے تین پولیس اہلکاروں کو گرفتار اور ان کا سرکاری اسلحہ تحویل میں لے لیا ہے جبکہ ان کے خلاف قتل اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
دوسری جانب کراچی میں قائم سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق چیف جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس غیر پیشہ وارانہ اور غیر سائنسی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کہیں اسنیپ چیکنگ بھی کی جا رہی ہو تو وہ منصوبہ بندی کے بغیر پکٹ لگا کر کی جاتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کے بقول دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ سی پی ایل سی کے پاس جرائم سے متعلق مکمل تجزیہ موجود ہوتا ہے لیکن اس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا۔
جمیل یوسف کے بقول جدید کیمروں کی مدد سے ملزمان کو پکڑنا انتہائی آسان ہے جب کہ دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج تک ٹیکنالوجی کو ان مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے پولیس کی تربیت کا فقدان بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔
ان کے مطابق تربیت کے لیے فراہم کردہ بجٹ میں کرپشن کی شکایات عام ہیں۔ لہٰذا پولیس اہلکاروں کی تربیت عام طور پر ہوتی ہی نہیں ہے۔
حال ہی میں سندھ میں نافذ کیے گئے پولیس ایکٹ کے تحت پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹ کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔ کمیشن کے ممبر کرامت علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہریوں کو پولیس پر اعتماد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی ممکنہ وجہ تھی کہ شہری نے گاڑی روک کر تلاشی دینے کے بجائے بھاگنا بہتر سمجھا۔
کرامت علی کے بقول پولیس اور شہریوں میں اس وقت اعتماد کی کمی ہے لیکن اس کا سارا بوجھ پولیس پر بھی نہیں ڈالا جا سکتا۔
کرامت علی نے مزید کہا کہ جہاں ایک طرف پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہیں شہریوں میں بھی یہ شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ پولیس کے کام میں ان کی مدد کی جائے تاکہ تخریب کار عناصر کا قلع قمع کیا جا سکے۔
کرامت علی نے بتایا کہ پبلک سیفٹی کمیشن کے قیام کا مقصد پولیس اور شہریوں کے درمیان روابط بڑھانا، پولیس پر شہریوں کا اعتماد بڑھانا اور پولیس کے خلاف شکایات کا ازالہ کرنا ہے۔ لیکن ایکٹ پاس ہونے کے باوجود کمیشن ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہوا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے کوئی شہری ہلاک ہوا ہو۔ اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
پولیس حکام کی جانب سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کے اعلانات کے باوجود ایسے واقعات بدستور ہو رہے ہیں۔
اس واقعے سے قبل 19 ستمبر کو ایک دلخراش ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں کراچی میں ایک پولیس اہلکار نے زخمی ملزم پر اندھا دھند فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ بعد ازاں وہ مقابلے میں زخمی ہونے والے اپنے ساتھی اہلکار کو ایمبولینس میں لے کر فرار ہو گیا تھا۔
گزشتہ برس ایک سات سالہ بچی امل، پولیس اور ملزمان میں مقابلے کے دوران پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بن گئی تھی۔
شہر میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دو معصوم بچوں سمیت کم از کم آٹھ افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ جعلی ثابت ہونے والے پولیس مقابلے ان کے علاوہ ہیں۔
ان واقعات پر قائم مقدمات کی عدالتوں میں سماعت جاری ہے لیکن اب تک کسی بھی کیس میں شہریوں پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو سزائیں نہیں مل سکی ہیں۔