پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر ساہیوال میں رواں سال کے آغاز پر پولیس کی جانب سے قومی شاہراہ پر چار افراد کی ہلاکت کے لرزہ خیز واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تاہم، محض نو ماہ بعد اس واقعے میں ملوث ملزمان کی رہائی پر پاکستان میں نظامِ انصاف پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
رواں سال 19 جنوری کی سہ پہر محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے ضلع ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں کار سوار خلیل، اُن کی اہلیہ، بیٹی اور محلے دار ذیشان گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ کارروائی میں تین بچے بھی زخمی ہوئے تھے۔
جمعرات کو لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اس مقدمے کے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد جہاں لوگ پاکستان میں عدالتی نظام پر تنقید کر رہے ہیں تو وہیں لواحقین کے مبہم مؤقف پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان کے اداروں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کی مزید پیروی نہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اس سے قبل لواحقین انصاف نہ ملنے پر مختلف فورمز پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے مقتولین کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران واقعے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
'پہلے ہی پتہ تھا کہ ایسا ہی ہو گا'
سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان میں عام طور پر ایسے واقعات دبا دیے جاتے ہیں جہاں سیکورٹی ادارے ملوث ہوں۔ جب تک واقعہ میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہتا ہے اس وقت تک مصنوعی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن، جیسے ہی میڈیا کو کوئی اور موضوع مل جاتا ہے تو اس طرح کے سنگین نوعیت کے واقعات پر بھی پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
سلیم بخاری کے مطابق، پاکستان میں انصاف کے عجیب و غریب معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی موجودگی میں ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ اس واقعے میں سی ٹی ڈی یا کوئی اور ایجنسی ملوث تھی اس لیے یہ وسوسہ موجود تھا کہ انصاف کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔
'غریب آدمی ریاست کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا'
سینئر وکیل راجہ ذوالقرنین کہتے ہیں پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عدالتی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان نے انگریز دور کے رائج قوانین اپنائے جہاں ریاست شہریوں کو تحفظ دیتی تھی۔
اُن کے بقول، ایسے واقعات ریاست کے خلاف جرم تصور کیے جاتے تھے اور اس میں مدعی کو کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں ان قوانین کو تبدیل کیا گیا اور ریاستی ادارے من مانی کرنے لگے۔
ایڈووکیٹ راجہ ذوالقرنین کہتے ہیں کہ اب کوئی بھی غریب شہری انصاف کے لیے ریاست کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لہذٰا، یہ فیصلہ ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس ملک میں تین دفعہ وزیرِ اعظم رہنے والے شخص کا پورا خاندان ریاست کے سامنے بے بس ہے۔ کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو صرف اس بات پر دھر لیا گیا کہ انہوں نے نواز شریف کو زہر دینے کا شک ظاہر کیا تھا۔
راجہ ذوالقرنین کہتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال کا فیصلہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال پیش آنے والے اس واقعے کے بعد پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) کے مختلف بیانات سامنے آتے رہے۔ پہلے بتایا گیا کہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیان آیا کہ اغوا ہونے والے بچوں کی رہائی کے لیے کارروائی کی گئی۔ بعدازاں، یہ کہا گیا کہ ہلاک ہونے والا شخص ذیشان دہشت گردوں کا سہولت کار جب کہ اس کے ساتھ سفر کرنے والے افراد بے گناہ تھے۔
راجہ ذوالقرنین کہتے ہیں کہ مدعی کے ویڈیو بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس نے بے بس ہو کر یہ بیان دیا ہے۔ کیوں کہ اسے یقین ہو گیا ہے کہ یہاں اسے انصاف نہیں مل سکتا۔
'شک کا فائدہ دینا قانون کا حصہ ہے'
سانحہ ساہیوال کے فیصلے کے بعد بعض افراد اس کا موازنہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کر رہے ہیں۔ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس کے تصادم کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
سینئر وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس براہ راست ملوث تھی۔ پولیس کے اعلٰی افسران موقع پر موجود تھے جنہوں نے براہ راست فائرنگ کا حکم دیا۔
تاہم، سانحہ ساہیوال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ پولیس کو شک تھا کہ گاڑی میں سوار افراد دہشت گرد تھے۔ لیکن اس کے باوجود پولیس کی اس کارروائی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ٹرائل کے دوران گواہان ملزمان کو شناخت ہی نہ کر سکیں تو ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کرنا قانونی عمل کا حصہ ہے۔
راجہ ذوالقرنین کہتے ہیں کہ اگر کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا مقصود ہو تو عدالتیں از خود نوٹس لیتی ہیں۔ ایسے معاملات جہاں ریاستی ادارے ملوث ہوں عدالتی تاریخ میں وہاں ازخود نوٹس لینے کی نظیر نہیں ملتی۔
حکومت پنجاب کا مؤقف
پنجاب کے وزیر اطلاعات میاں اسلم اقبال کہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اگر لواحقین یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے تو حکومت قانونی معاونت کے لیے ان کا ساتھ دے گی۔