واشنگٹن —
سینئر سفارت کار مارک گروسمین نے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی انتظامیہ کے نمائندہٴ خصوصی کے طور پر عہدے سے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے، جس پر 14دسمبر سے عمل درآمد ہوگا۔
یہ بات امریکی محکمہٴ خارجہ نے منگل کی شام ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے بتائی۔
سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ جنوری 2011ء میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ایمبیسیڈر مارک گروسمین کو ریٹائرمنٹ سے واپس آکر افغانستان و پاکستان کے خصوصی نمائندے کے طور پر فرائض سنبھالنے کے لیے کہا تھا۔ ’اس عہدے پر وہ کم و بیش دو سال تک فائز رہے، اور وزیر خارجہ سے کیے گئے سمجھوتے کے مطابق، اب وہ دوبارہ اپنی نجی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں‘۔
وزیر خارجہ نے ایمبیسیڈر گراسمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اُن کی طرف سے کی گئی ’اعلیٰ سفارت کاری‘ کی طرف نشاندہی کی، جس میں استنبول، بون، شکاگو اور ٹوکیو کانفرنسوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
افغانستان سے متعلق اِن کانفرنسوں میں علاقائی اور بین الاقوامی حمایت کے اعادے کے لیے ایک نیٹ ورک وضع کرنے کا کام کیا گیا، جس کے اثرات 2014ء کے فوجی انخلا اور اگلے عشرے تک نمایاں رہیں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ گروسمین کے کام کے باعث یہ ممکن ہوا کہ افغان امن عمل کے لیے شرائط طے کی گئیں، جن کی رو سے عشروں سے جاری اس تنازعے کے منصفانہ تصفیے کے لیے مذاکرات کی راہ اپنانا اور افغانوں کے لیے دیگر افغانوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی راہ ہموار ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات صدر کی طرف سےدیے گئے اصولوں کی کلیدی راہ کے عین مطابق ہے، جن میں القاعدہ کو منتشر کرنا اور شکست دینا اور اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنا رہے۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ ایمبیسیڈر گروسمین کی قیادت میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے کے لیے کام کیا، جن کی بنیاد مشترکہ مفادات تلاش کرکے اُُن پر مشترکہ طور پر عمل درآمد کرنا شامل ہے۔
اُن کے الفاظ میں، ’یہ کام جاری رہے گا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’وضع کردہ یہ حکمتِ عملیاں اور کاوشیں جن کی آبیاری ایمبیسیڈر گراسمین نے کی ٕ اُن پر محکمہ خارجہ عمل درآمد کرے گا‘۔
محکمہ خارجہ نے بتایا ہے کہ مارک گروسمین کے بعد، افغانستان و پاکستانی کے قائم مقام نمائندہٴ خصوصی کا چارج ایمبیسیڈر ڈیوڈ پیرئر سنبھالیں گے، جو اِس وقت ’پرنسیپل ڈپٹی اسپیشل ریپریزنٹیٹو‘ کے فرائض سنبھال رہے ہیں۔
اِس سے قبل، گروسمین سیاسی امور سے متعلق معاون وزیر خارجہ، معاون وزیر خارجہ برائے یورپ اور ترکی کے سفیر رہ چکے ہیں۔
دسمبر 2010ء میں رچرڈ ہالبروک کے انتقال کے بعد وہ پاکستان و افغانستان کے لیے امریکی انتظامیہ کے ایلچی کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔
افغانستان و پاکستان کے لیے نمائندہٴ خصوصی کا یہ عہدہ اوباما انتظامیہ نے وضع کیا تھا جس کا مقصد سفارتی چیلنجز سے خاطر خواہ طور پر نبردآزما ہونا اور متعدد ممالک سے رابطےکا اہم کام بجا لانا تھا۔
اس سے قبل، میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ گروسمین اپنی ذاتی زندگی سے متعلق ترجیحات کو وقت دینے کے خواہاں ہیں۔
اگلے سال کے آغاز پر افغانستان و پاکستان کے خصوصی ایلچی کے طور پر فرائض سنبھالنے سے قبل، ڈیوڈ ڈی پیرئس افغانستان میں امریکی سفارت خانے میں معاون چیف آف دی مشن اور الجیریا میں سفیر رہ چکے ہیں۔
یہ بات امریکی محکمہٴ خارجہ نے منگل کی شام ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے بتائی۔
سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ جنوری 2011ء میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ایمبیسیڈر مارک گروسمین کو ریٹائرمنٹ سے واپس آکر افغانستان و پاکستان کے خصوصی نمائندے کے طور پر فرائض سنبھالنے کے لیے کہا تھا۔ ’اس عہدے پر وہ کم و بیش دو سال تک فائز رہے، اور وزیر خارجہ سے کیے گئے سمجھوتے کے مطابق، اب وہ دوبارہ اپنی نجی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں‘۔
وزیر خارجہ نے ایمبیسیڈر گراسمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اُن کی طرف سے کی گئی ’اعلیٰ سفارت کاری‘ کی طرف نشاندہی کی، جس میں استنبول، بون، شکاگو اور ٹوکیو کانفرنسوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
افغانستان سے متعلق اِن کانفرنسوں میں علاقائی اور بین الاقوامی حمایت کے اعادے کے لیے ایک نیٹ ورک وضع کرنے کا کام کیا گیا، جس کے اثرات 2014ء کے فوجی انخلا اور اگلے عشرے تک نمایاں رہیں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ گروسمین کے کام کے باعث یہ ممکن ہوا کہ افغان امن عمل کے لیے شرائط طے کی گئیں، جن کی رو سے عشروں سے جاری اس تنازعے کے منصفانہ تصفیے کے لیے مذاکرات کی راہ اپنانا اور افغانوں کے لیے دیگر افغانوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی راہ ہموار ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بات صدر کی طرف سےدیے گئے اصولوں کی کلیدی راہ کے عین مطابق ہے، جن میں القاعدہ کو منتشر کرنا اور شکست دینا اور اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنا رہے۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ ایمبیسیڈر گروسمین کی قیادت میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے کے لیے کام کیا، جن کی بنیاد مشترکہ مفادات تلاش کرکے اُُن پر مشترکہ طور پر عمل درآمد کرنا شامل ہے۔
اُن کے الفاظ میں، ’یہ کام جاری رہے گا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’وضع کردہ یہ حکمتِ عملیاں اور کاوشیں جن کی آبیاری ایمبیسیڈر گراسمین نے کی ٕ اُن پر محکمہ خارجہ عمل درآمد کرے گا‘۔
محکمہ خارجہ نے بتایا ہے کہ مارک گروسمین کے بعد، افغانستان و پاکستانی کے قائم مقام نمائندہٴ خصوصی کا چارج ایمبیسیڈر ڈیوڈ پیرئر سنبھالیں گے، جو اِس وقت ’پرنسیپل ڈپٹی اسپیشل ریپریزنٹیٹو‘ کے فرائض سنبھال رہے ہیں۔
اِس سے قبل، گروسمین سیاسی امور سے متعلق معاون وزیر خارجہ، معاون وزیر خارجہ برائے یورپ اور ترکی کے سفیر رہ چکے ہیں۔
دسمبر 2010ء میں رچرڈ ہالبروک کے انتقال کے بعد وہ پاکستان و افغانستان کے لیے امریکی انتظامیہ کے ایلچی کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔
افغانستان و پاکستان کے لیے نمائندہٴ خصوصی کا یہ عہدہ اوباما انتظامیہ نے وضع کیا تھا جس کا مقصد سفارتی چیلنجز سے خاطر خواہ طور پر نبردآزما ہونا اور متعدد ممالک سے رابطےکا اہم کام بجا لانا تھا۔
اس سے قبل، میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ گروسمین اپنی ذاتی زندگی سے متعلق ترجیحات کو وقت دینے کے خواہاں ہیں۔
اگلے سال کے آغاز پر افغانستان و پاکستان کے خصوصی ایلچی کے طور پر فرائض سنبھالنے سے قبل، ڈیوڈ ڈی پیرئس افغانستان میں امریکی سفارت خانے میں معاون چیف آف دی مشن اور الجیریا میں سفیر رہ چکے ہیں۔