پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل ’جیو نیوز‘ نے گزشتہ ہفتے کو اپنے ناظرین سے ایک غیر معمولی معذرت کی۔ اس نے اعتراف کیا کہ ایک روز پیشتر وہ مستونگ میں دہشت گردی کی اس طرح کوریج نہیں کرسکا جیسا کہ کی جانی چاہیے تھی۔ اس کے بجائے چینل کی توجہ سیاست سے جڑی خبروں پر رہی جس کے لیے ادارہ معذرت خواہ ہے۔
صرف ’جیو نیوز‘ نہیں، پاکستان کے تمام نیوز چینل اس شام مستونگ میں انتخابی ریلی پر حملے کی خبر ملنے کے باوجود نواز شریف کی واپسی کی کوریج میں مگن رہے۔ اگر یہ کوئی غلطی نہیں تھی تو ’جیو نیوز‘ نے معذرت کیوں کی؟ اور اگر غلطی تھی تو دوسرے چینلوں کو اس کا احساس کیوں نہیں ہوا؟
روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے ایڈیٹر طاہر نجمی نے ’وائس آف امریکا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں الیکٹرونک میڈیا کی روش پرنٹ میڈیا سے ہٹ کر رہی ہے۔ اس کی توجہ خبر کی فراہمی کے بجائے ریٹنگ پر رہتی ہے۔ ہر چینل دوسرے چینلوں کو مانیٹر کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ کون سی خبر زیادہ چل رہی ہے۔ وہ خود بھی اسی طرف چل پڑتا ہے۔ بس یہ بھیڑ چال ہے۔ اسی میں غلطی ہوجاتی ہے۔
طاہر نجمی نے کہا کہ پاکستان کے نیوز چینلوں نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ لیکن اب بھی جتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، وہ نہیں ہورہا۔ مستونگ کی خبر آنے کے بعد نیوز چینلوں کو اپنی نشریات کا رخ اس جانب موڑنا چاہیے تھا۔
’نیو نیوز‘ کے ڈائریکٹر نیوز محمد عثمان کہتے ہیں کہ اس شام کی کوریج میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔ جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا۔ اتفاق سے دو بڑے واقعات ایک ساتھ ہوگئے۔ میڈیا کی توجہ پہلے سے نواز شریف کی واپسی پر تھی۔ پورے پاکستان کے ناظرین اس بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ مستونگ کے واقعے کو میڈیا نے بالکل جگہ نہیں دی۔ جس قدر اطلاع ملتی رہی، اتنی خبر فراہم کی جاتی رہی۔ ابتدا میں زیادہ جانی نقصان کی خبر نہیں تھی۔ جب صورتحال واضح ہوئی تو تمام چینلوں نے سانحہ مستونگ کو ٹاپ اسٹوری کے طور پر پیش کیا۔
محمد عثمان نے تسلیم کیا کہ تمام نیوز چینل خاص طور پر بڑے چینلوں پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ انڈسٹری کا رواج ہے۔ اگر کوئی بڑا چینل کسی معاملے پر خصوصی نشریات پیش کرتا ہے تو باقی چینل اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ نیوزروم کے منیجرز پر ریٹنگ کا دباؤ بھی ہوتا ہے، انتظامیہ کا دباؤ بھی ہوتا ہے کہ مین اسٹریم چینل نواز شریف کی واپسی کی کوریج کررہے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر رہے؟ جب تک ہر نیوز روم کے عملے کو ادارتی فیصلوں کی آزادی نہیں ملے گی، بہتری نہیں آئے گی۔
صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پی ایف یو جے کے سابق صدر مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی کے لیے کئی دن سے ماحول بن رہا تھا۔ مستونگ کا واقعہ بڑا تھا لیک ن ابتدا میں وہ ادھوری خبر تھی اس لیے میڈیا کی توجہ نواز شریف پر برقرار رہی۔ جب اندازہ ہوگیا کہ ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے تو میڈیا کو توازن درست کرنا چاہیے تھا۔ غالباََ اس وقت دو مسائل درپیش تھے۔ ایک تو درست اطلاع نہیں مل رہی تھی کیونکہ نیوز چینلوں کے نامہ نگار وہاں نہیں تھے۔ دوسرے، ویڈیو بھی دستیاب نہیں تھی۔ اس لیے میڈیا کو اس واقعے کی سنگینی کا احساس نہیں ہوسکا۔ یہی واقعہ کوئٹہ میں ہوا ہوتا تو میڈیا فورا اس طرف متوجہ ہوجاتا۔
مظہر عباس نے اس جانب توجہ دلائی کہ پاکستان میں اور بھارت میں بھی کارپوریٹ میڈیا ہے۔ یہ نیوز چینل کم اور انوٹینمنٹ چینل زیادہ نظر آتے ہیں۔ ریٹنگ کی دوڑ کی وجہ سے ان کا کاروبار بڑی خبر کے بجائے چسکے والی رپورٹ پر چلتا ہے۔
بزرگ صحافی محمد ضیا الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میڈیا کی زیادہ توجہ شمالی پنجاب اور جنوبی سندھ پر رہتی ہے۔ چونکہ بڑی ’کنزیومر مارکیٹ‘ یہاں ہیں اس لیے اشتہار بازی کی توجہ اس طرف ہوتی ہے اور میڈیا میں ادھر کی ریٹنگ فیصلہ کن رہتی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو یہ نظرانداز کرتے ہیں۔ یہاں کی بڑی بڑی خبریں پاکستان کا میڈیا کور نہیں کرتا۔ سیکورٹی ایجنسیاں بھی یہاں صحافیوں کو کام نہیں کرنے دیتیں۔ ماضی میں میڈیا گروپس نے کئی بار اپنے نامہ نگاروں کو بھیجنے کی کوشش کی لیکن ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
مستونگ کا واقعہ ٹھیک سے کور نہ ہونے کی ایک وجہ تو نواز شریف کی واپسی تھی کیونکہ اس کی کوریج کا ٹیمپو بن چکا تھا۔ لیکن، یہ بات بھی ہے کہ بلوچستان میں لاجسٹکس کے مسائل ہیں۔ ہمارا میڈیا اس قابل نہیں کہ ایک جانب دھیان ہو تو تیزی سے دوسری طرف متوجہ ہوسکے۔
سینئر اینکرپرسن عامر متین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بلوچستان کی خبریں میڈیا میں نہیں آتیں۔ ان کے مطابق مرکزی دھارے کی میڈیا میں بلوچستان کو کور کرنے کا رجحان نہیں ہے، کوئی کوشش بھی نہیں کرتا اور ریٹنگ بھی نہیں آتی۔ مستونگ کے واقعے کو آپ کسی پہلو سے دیکھیں، بلوچستان کے حوالے سے سوچیں، انسانیت کے خانے میں رکھیں، سیاسی اور انتخابی اہمیت کے اعتبار سے نظر ڈالیں، یہ عظیم ترین سانحات میں سے ایک ہے۔ اس کی کوریج میں ناانصافی ہوئی ہے۔
عامر متین نے زور دے کر کہا کہ خبرنامے کا فیصلہ کرنے کا اختیار صحافی کے پاس نہیں رہا بلکہ مالکان نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ مالکان کے سامنے اس کے کاروباری مفادات بلکہ سیاسی مفادات بھی ہوتے ہیں۔ جب تک مالکان کے پاس اختیار رہے گا، ایسا ہوتا رہے گا۔