اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی وزارتی سطح کی مشترکہ تعاون کمیٹی کا ساتواں اجلاس منگل کو اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں منصوبے کے تحت جاری مختلف پراجیکٹس پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
یہ سی پیک سے متعلق اعلیٰ ترین فیصلہ ساز مشترکہ کمیٹی ہے جو کہ اقتصادی راہداری میں مجوزہ منصوبوں کو شامل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
اجلاس کی صدارت مشترکہ طور پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اور چین کے کمیشن برائے قومی ترقی اور اصلاحات کے وائس چیئرمین وانگ شیاتاؤ نے کی۔
اپنے خطاب میں احسن اقبال نے اقتصادی راہداری کے انتظامی ڈھانچے اور باہمی تعاون کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سماجی، تعلیمی اور صحت کے شعبوں سے متعلق منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کے بقول منصوبے کے آغاز پر شروع کیے گئے مختلف پراجیکٹس اہم مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور سی پیک کے تحت صنعتی تعاون پاکستان کو علم پر مبنی معیشت کے فروغ کے ضمن میں ٹیکنالوجی، مہارت اور معلومات کی منتقلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
کمیٹی کے اس اجلاس میں متعدد ترقیاتی اور بڑے منصوبوں کی منظوری بھی دی گئی۔
اجلاس میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ سمیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم بھی شریک ہوئے جب کہ دونوں ملکوں کی کئی اہم تجارتی اور کاروباری شخصیات بھی اس اجلاس میں موجود تھیں۔
پاکستان اس اقتصادی راہداری منصوبے کو نہ صرف اپنے ملک بلکہ خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیتا ہے جب کہ اس کا روایتی حریف بھارت اس منصوبے سے متعلق اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتا آ رہا ہے۔
نئی دہلی کا موقف ہے کہ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ اس متنازع علاقے سے گزرتا ہے جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے لہذا یہ اقتصادی راہداری اس کی جغرافیائی خودمختاری کے منافی منصوبہ ہے۔
لیکن پاکستان اور چین دونوں ہی ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکی وزیر دفاع جم میٹس کا بھی ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت بننے والے سی پیک منصوبے کا ایک حصہ متنازع علاقے سے گزرتا ہے جو ان کے بقول کسی نئے تنازع کو جنم دے سکتا ہے۔
لیکن پاکستان اور چین نے اس بیان کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پورے خطے کی معاشی خوشحالی کا منصوبہ ہے اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل ہے۔