رسائی کے لنکس

پاکستان کا بیش قیمتی قدرتی حسن اور فطرت کے نظارے


پاکستان کا بیش قیمتی قدرتی حسن اور فطرت کے نظارے
پاکستان کا بیش قیمتی قدرتی حسن اور فطرت کے نظارے

سرسبز وشاداب اور گھنے درخت و جنگلات خوبصورتی کا ایسا روپ ہیں جس کا کوئی نیم البدل نہیں۔ سوچئے اگر دنیا بھر میں اگے درخت اور سبز ہ ختم ہوجائے تو دنیا کیسی دکھائی دے گی؟؟۔۔ یقینا ایسی ہی جیسے کسی خوب صورت شخص کے سر کے بال کاٹ دیئے جائیں اور وہ گنجا ہوکر بدنما لگنے لگے۔

دریا، سمندر، پہاڑ، درخت، جھیلیں، ندیا ں، جنگلات اور صحرا ۔۔یہ سب کسی بھی علاقے کا قدرتی حسن ہیں اور پاکستان بھی اس حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں کی جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع کس سے کم نہیں۔ یہاں پائے جانے والے پودوں ،درختوں اور جنگلات کی بات کریں تو یہاں پودوں کی 5 ہزار 7سو اقسام پائی جاتی ہیں۔ صرف چترال ، کشمیر اور شمالی بلوچستان میں ہی 203اقسام کے پورے اور درخت پائے جاتے ہیں جو ملک بھر کے کل درختوں کا چار فیصد ہیں۔ جہاں اتنی بڑی مقدار میں سرسبز و شاداب نظاروں کی گنجائش موجود ہو بھلاوہاں حسین نظاروں کی کیا کمی ہوسکتی ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں درخت اور جنگلات کی کوئی کمی نہیں لیکن سب سے زیادہ شمالی علاقہ جات کے پہاڑی سلسلے اپنی دلکش کا سبب ہیں۔ یہاں ہرے بھرے درختوں کی بھرمار ہے اور یوں لگتا ہے کہ گویا الپائن، سب الپائن، صنوبر، سفیدہ اور دیودارکے اونچے اونچے درختوں میں کوئی حسن کی ملکہ رہتی ہو ۔بیشتر مقامات پر درختوں کے جھنڈ اس قدر گھنے ہیں کہ ان کے تنوں اور جڑوں تک سورج کی روشنی کا گزر ہی نہیں ہوتا۔

نسبتاً کم بلند ہمالیائی سلسلوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے اور اسی سبب یہاں دیودار، پائن، گل لالہ اور شاہ بلوط یا بید مجنو ں کے گھنے جنگلات کی بھرمار ہے۔ شمالی علاقہ جات کی بولا شبار وادی میں چونکہ زیادہ بارش ہوتی ہے اس لئے یہاں پاکستان کے کئی علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ درخت پائے جاتے ہیں ۔

یہاں کے برف پوش پہاروں کی ڈھلانوں پر برف کی تہہ کے بعد مختلف قسم کے پودوں کے لئے منساسب ماحول میسر ہے۔ یہاں چیڑ، سفیدے، صنوبر، سندر اور چلغوزے کے درخت بھی پائے جاتے ہیں۔ کوہ سلیمان اور کوہ نمک کے علاقے بنجر ہیں مگر یہاں شہتوت کے درختوں کے گھنے جنگلات ہیں جنہیں مقامی زبان میں شیشم بھی کہا جاتا ہے۔

خشک موسم میں اگنے والا سبزہ اور پودے ،صوبہ سرحد اور بلوچستان کی وادیوں کے زیور ہیں ۔ ان زیوارت میں گھاس، پستہ قدر تاڑ کے درخت اور جھاڑیاں بھی شامل ہیں۔ مغربی پہاڑیوں میں صنوبری جھاڑیوں، جھاوٴ یعنی تمرس اور پستے کے درخت زمین کا فطر ی حسن ہیں۔

بلوچستان کے شہر زیارت میں صنوبر کے جنگلات گویا زمین کی تہوں سے نکلتا قدیم مگر انمول خزانہ ہے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار برس قدیم ہیں ۔یہ درخت تین لاکھ ایکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایبٹ آباد میں بھی بعض200 اور 300 سال پرانے اور نایاب درخت موجود ہیں ۔

دریائے سندھ کے میدانی علاقوں میں خشک جھاڑیاں اور خاردار درخت بکثرت پائے جاتے ہیں جنہیں' راکھ' کہا جاتا ہے ۔ یہ درخت اس علاقے کا خاصہ ہیں اور یہ 45 درجہ سیلیس سے بھی زیادہ درجہ حرارت میں زندہ رہنے کی قدرتی صلاحیت سے مالامال ہیں۔

آب پاشی کے ذریعے اگانے والے پودوں اوردرختوں کی بات کریں تو پنجاب اور سندھ کے کئی علاقے ان سے بھر پڑے ہیں ۔ چھانگا مانگا اور لال سوہنزا ان کی آماجگاہ ہیں۔

دنیا کا پانچواں سب سے بڑا چمرنگ کا جنگل بھی پاکستان میں ہی ہے۔ اسے انڈس دیلٹا کہا جاتا ہے ۔ یہ بحیرہ عرب کے ساتھ پر کراچی اوربھارت سے ملنے والی پاکستان کی جنوب مغربی سرحد کے درمیان واقع ہے اور چھ لاکھ ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کے علاوہ مینگروز کے جنگلات 1046 کلو میٹر کی ساحلی پٹی پر چار جغرافیائی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں۔ محکمہ جنگلات سندھ کے زیر انتظام 2 لاکھ 80 ہزار 470 ہیکٹرز مینگروز کی اراضی ہے جبکہ بورڈ آف ریونیو کے زیر انتظام 2 لاکھ 60 ہزار ہیکٹر، پورٹ قاسم اتھارٹی کے زیر انتظام 64 ہزار ہیکٹر اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام 2 ہزار 547 ہیکٹر مینگروز کی اراضی ہے۔

ملک کے تمام جنگلات کی مجموعی اراضی میں صوبہ سندھ کے جنگلات کی اراضی 0.678 ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے جو شرح تناسب کے لحاظ سے 16 فیصد ہے جس میں سے 35 فیصد دریائی اور 51 فیصد ساحلی جنگلات پر مشتمل ہے۔ دنیا میں فارسٹ لینڈ کی شرح 35,30,25 اور 40 فیصد تک ہے لیکن پاکستان کا صرف 5 فیصد رقبہ فارسٹ لینڈ پر مشتمل ہے جسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔

XS
SM
MD
LG