رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم کا ووٹر تاحال کسی 'معجزے' کا منتظر


متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار

ماضی میں بڑے بڑے جلسے کرنے کی شہرت رکھنے والی ایم کیو ایم نے اب تک کراچی میں انتخابی مہم کے سلسلے میں کسی بڑے جلسے کا انعقاد بھی نہیں کیا۔

کراچی میں گزشتہ 30 سال متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) دوسری جماعتوں کے مقابلے میں انتخابات میں بڑی حد تک 'کلین سوئپ' کرتی رہی ہے۔ لیکن آج خود اسے بہت سے مسائل حتیٰ کہ خود اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔

"ریاستی پالیسی" کے پیشِ نظر ایک امکان تو یہ بھی ہے کہ خود ایم کیو ایم ہی 25 جولائی کے انتخابات میں 'وائٹ واش' ہو جائے۔

لیکن بعض سیاسی حلقوں کو امید ہے کہ شاید 'ایم کیو ایم' کے ساتھ انتخابات میں اتنا برا نہ ہو۔

اس صورتِ حال میں متحدہ قومی موومنٹ کا روایتی ووٹر تاحال کسی "معجزے" کے انتظار میں "لندن" پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ 'ایم کیو ایم' کے 'ایم کیو ایم پاکستان' میں منقلب ہوجانے کے باوجود اس جماعت کا 'ڈائی ہارڈ' ووٹر اور سپورٹر اب تک بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کو بھلا نہیں سکا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر ترین سیاست دان کے ساتھ، جن پر کبھی جان نچھاور کرنے کی باتیں کی جاتیں تھیں، مارٹن کوارٹر جیسے اردو بولنے والے ووٹرز کے گڑھ میں وہ واقعہ پیش نہ آتا جو گزشتہ شام پیش آیا۔

سن 1988ء سے پارٹی سے وابستہ سینئر رہنما فاروق ستار پیر کی شام پریس کانفرنس کرنے کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹر پہنچے تو چند خواتین نے فاروق ستار کے خلاف نعرے لگانے شروع کردئیے اور ان پر سیاست چمکانے کے الزامات عائد کیے۔

خواتین اس بات پر نالاں تھیں کہ ایم کیو ایم کے سینئر ترین رہنما ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے شہر اور اپنے ووٹرز کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ کئی دہائیوں تک حکومتوں میں شامل رہے لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ عوام کو نہیں پہنچا سکے۔

لیکن فاروق ستار نے اس واقعے پر اپنے ردِ عمل میں دعویٰ کیا ہے کہ "مخالف جماعتیں ہمارا پروگرام خراب کرنے کے لیے خواتین کو بھیج رہی ہیں۔"

ایم کیو ایم کے حلقوں میں یہ بات گردش میں ہے کہ الطاف حسین نے چند ہفتے قبل فیس بک پر اپنے لائیو خطاب میں اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ اگر نمائندے ان کے پاس ووٹ مانگنے آئیں تو ان کا "بہت اچھے طریقے سے استقبال" کریں اور ان سے یہ ضرور پوچھیں کہ پچھلے پانچ سال سے وہ کہا ں تھے؟ تب انہیں اپنے ووٹرز اور علاقوں کے دوروں کا خیال کیوں نہیں آیا؟

انتخابی مہم کے دوران کراچی کے علاقے میں لگے ایم کیو ایم کے پرچم
انتخابی مہم کے دوران کراچی کے علاقے میں لگے ایم کیو ایم کے پرچم

ایک عام تاثر یہ ہے کہ گزشتہ شام کے واقعے کا پسِ منظر یہی خطاب ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات کی کوریج سے محروم ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم بانی عموماً ہر رات فیس بک لائیو کے ذڑیعے عوام سے خطاب کرتے ہیں اور سندھ کے شہری علاقوں میں آباد اپنے حامیوں کو کوئی نہ کوئی پیغام ضرور دیتے ہیں۔

مارٹن کوارٹر میں پیش آنے والے واقعے کے بعد علاقے کے ایک مکین احمد کمال نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ ایم کیو ایم کو شروع سے ہی ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن اس بار ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکے کہ ووٹ کسے دینا ہے؟

ان کے بقول ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کھوکھلی ہے اور "ہمارے ووٹوں کا تو پہلے ہی سودا ہوچکا ہے۔"

انور کمال ہی نہیں ایم کیو ایم کے بہت سے مخلص اور 'ڈائی ہارڈ' ووٹر ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ وہ ووٹ کسے دیں گے؟

بانی ایم کیو ایم انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں جب کہ خود ایم کیو ایم پاکستان کئی دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔

پارٹی کا خالد مقبول گروپ سستی کا بھی شکار ہے۔ ایک جانب تو اس نے امیدواروں کا اعلان دیر سے کیا تو دوسری جانب پارٹی منشور کا اعلان بھی محض دو دن پہلے ہی کیا گیا ہے۔

ماضی میں بڑے بڑے جلسے کرنے کی شہرت رکھنے والی ایم کیو ایم نے اب تک کراچی میں انتخابی مہم کے سلسلے میں کسی بڑے جلسے کا انعقاد بھی نہیں کیا۔

ایم کیو ایم کی سست روی سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ ایم کیو ایم کو اس بار انتخابات میں امیدوار نہیں مل رہے تھے اور جو ملے بھی ہیں تو پارٹ کے حامیوں نے ان کا خیر مقدم روایتی جوش و جذبے سے نہیں کیا۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سست روی اور عوام کی عدم دلچسپی کا فائدہ ایم کیو ایم کی حریف جماعتوں کو پہنچ سکتا ہے۔

اس صورتِ حال میں بہت سے لوگ ایم کیو ایم لندن کی قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور وہاں سے کسی اعلان کے منتظر ہیں۔

کراچی کے علاقے لیاقت آباد کے رہائشی ایک ادھیڑ عمر شہری نے وی او اے سے گفتگو میں کہا، "ہوسکتا ہے آخری وقت پر الطاف بھائی کسی ایک گروپ کی حمایت کا اعلان کردیں۔ اعلان ہونے کی دیر ہے کہ لوگ اسی گروپ کے حمایتی ہوجائیں گے۔"

XS
SM
MD
LG