لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سنائی گئی سزا معطل کرنے اور خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواستوں کی سماعت کی۔ درخواستوں پر وفاقی حکومت سے سنگین غداری کیس کی سمری طلب کر لی گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو فل بینچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی نقوی نے عدالتی معاون بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ 2007 میں ایمرجنسی لگی۔ لیکن، 2007 سے 2013 تک خاموشی کیوں تھی۔ کیوں اگلی حکومت کا انتظار کیا گیا۔
جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ 2009 میں کیوں یہ کیس نہیں بنایا گیا، جس پر عدالتی معاون علی ظفر نے جواب دیا کہ جو کیس بنایا گیا وہ قانون کے مطابق نہیں بنا اور نہ عدالت کی تشکیل قانون کے مطابق تھی۔ 21 جون 2013 کو اٹارنی جنرل نے سمری وزیراعظم کو ارسال کی کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا کیس بنایا جائے جبکہ سیکریٹری داخلہ کو 29 دسمبر 2013 کو شکایت درج کرنے کا اختیار دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل چھ کے تحت کیس کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں بن سکتا۔ یہ اختیار تب وزیراعظم کے پاس نہیں تھا۔ علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن صدر کے نام سے جاری ہونا تھا یا صدر نوٹیفکیشن کا اختیار کسی کو دے دیں۔
جس پر فل بینچ کے سربراہ جسٹسں مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کابینہ کے اجلاس میں کبھی یہ ایجنڈا آیا۔
حکومتی وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے عدالت کو بتایا کہ یہ کبھی کابینہ کا ایجنڈا نہیں تھا۔
دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد لازم تھا کہ آرٹیکل چھ آنے کے بعد 1973 اور 1974 کے سنگین غداری قوانین میں ترامیم کی جاتی۔ آرٹیکل 6 میں نیا جرم تو شامل ہوا مگر اس میں سزا کا طریقہ کار طے نہیں کیا گیا۔ ایسا ممکن نہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 6 کے تحت خود بخود سزا ہو جائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت تو بنا دی لیکن فوجداری مقدمہ کیسے چلے گا اس کا طریقہ کار طے ہی نہیں کیا گیا۔ اس کیس میں مدعی پر کوئی جرح نہیں کی گئی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے عدالت بنانے کے بعد انکوائری کا حکم دیا اور کیس آنے کے پہلے دن ہی خصوصی عدالت نے فرد جرم عائد کر دی۔ کوئی بھی عدالت وفاقی حکومت کی مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بعد غداری کی کارروائی کر سکتی ہے۔ یہاں وفاقی حکومت نے قانون کی پاسداری نہیں کی۔
اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ 2007 میں ایمرجنسی لگی اور کہا جاتا ہے کہ آئین معطل ہوا۔ 2009 میں فیصلہ آیا جس میں 2007 کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایڈووکیٹ علی ظفر سے استفسار کیا کہ 2007 سے خاموشی تھی اور 2013 سے پھر یہ کیس آ جاتا ہے، جس پر پرویز مشرف کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ پرویز مشرف نے آئین معطل کیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ مجاز اتھارٹی کو کیس دائر کرنے کی منظوری کون دے گا؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا تھا کہ کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی اس طرح تو اس کیس کی بنیاد ہی موجود نہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کابینہ کے اجلاس میں ایجنڈا میں شامل تھا؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اس حوالے سے کابینہ کا کوئی بھی اجلاس نہیں ہوا۔
اِس پر عدالتی بینچ نے استفسار کیا کہ یہ تاریخ میں اہم ترین معاملہ تھا کیا ایجنڈا آئٹم کے بغیر کابینہ ایسے معاملے کو دیکھ سکتی ہے؟
فل بینچ میں شامل جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف کے معاملے پر دیکھ لیں کابینہ کا ذکر ہوا کہ کابینہ میں 11 یا 13 لوگ تھے۔ لیکن پرویز مشرف کیس میں تو کوئی کابینہ کی منظوری یا اس کا کردار نظر نہیں آ رہا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کابینہ سے منظوری کا کوئی ریکارڈ حکومت کے پاس ہے؟ جس پر وزارت داخلہ کے نمائندے نے عدالت میں بیان دیا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
فل بینچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل میں جو ججز لگائے گئے وہ کن بنیادوں پر لگائے گئے؟ خصوصی عدالت میں ججز لگانے کے لیے کوئی تحریری بات چیت بھی ہوئی یا سب کچھ ٹیلی فون پر ہی ہوا؟
اس پر وفاقی حکومت کے وکیل اشتیاق خان نے عدالت کو بتایا کہ وزارت قانون و انصاف نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کے نام دیے جائیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایت مجاز اتھارٹی نے دائر نہیں کی یہاں بھی قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔ قانون کے مطابق، کابینہ نے مجاز اتھارٹی کو نامزد کرنا تھا کہ وہ شکایت درج کروائے۔
ان کے بقول، پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل کیسے ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل مکمل کر کے فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر عدالت کی تشکیل ہی غلط اور غیر قانونی ہے تو اس کے فیصلے سمیت تمام اقدام غیر قانونی تصور ہوں گے۔
اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص ٹرائل میں پیش نہیں ہو رہا تو عدالت زیادہ سے زیادہ اسے اشتہاری قرار دے سکتی ہے۔
عدالتی بینچ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے علاوہ کتنے لوگ ہیں جو باہر بیٹھے ہیں ان کے خلاف بھی ایسے کبھی ٹرائل ہوا؟ علی ظفر نے کہا کہ سیکشن 9 کے تحت ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ کسی کو سنے بغیر سزا دینا کہاں کا قانون ہے؟ اگر کوئی 324 کا بیان نہیں دے رہا تو ضروری ہے کہ اسے طلب کر لیا جائے۔ وہ ٹرائل کورٹ کے نتائج پر نہیں جا رہے۔ فیصلے کو دیکھیں تو اس وقت جس جس نے ساتھ دیا وہ سب اعانت کے ملزم بن جاتے ہیں۔
اس پر عدالتی معاون بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت وزیر اعظم نے اکیلے ہی کیس شروع کرنے کا فیصلہ کیا جو قانون کے منافی ہے۔ آرٹیکل 6 کا جرم کوئی اکیلا نہیں کر سکتا۔ مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی آئین کے خلاف ہوگی۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم عائد ہوئی اس میں تو آرٹیکل چھ کا ذکر ہی نہیں ہے۔
عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ جب وفاقی حکومت دیگر کو ملزم نہیں بناتی تو خصوصی عدالت دیگر ملزموں کو بلوا سکتی ہے؟ اس پر بیرسٹر علی نے کہا کہ خصوصی عدالت کو دیگر ملزمان کو طلب کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ غداری ایک شخص نہیں کر سکتا۔ یہ جرم مجموعی طور پر کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف کا اقدام کیا تھا؟
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے پرویز مشرف کے وکلا اور عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری طلب کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے وکیل کو پیر 13 جنوری 2020 کو دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔