سابق وزیراعظم نواز شریف نے بیرون ملک علاج کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ علاج اسی ڈاکٹر سے ممکن ہے جس نے برطانیہ میں ان کا علاج کیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے 15 صفحات پر مشتمل نظر ثانی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمٰی نے 26 مارچ کو 6 ہفتوں کے لیے مشروط ضمانت دی تھی۔ یہ ضمانت طبی بنیادوں پر دی گئی اور 26 مارچ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ نواز شریف 6 ہفتوں کے دوران ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔
دائر کی جانے والی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نواز شریف کے پاکستان میں علاج کرانے کی پابندی پر نظر ثانی کی جائے۔ نواز شریف کا علاج اسی ڈاکٹر سے ممکن ہے جس نے برطانیہ میں ان کا علاج کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف ضمانت میں توسیع کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں تاہم تحریری حکم نامے میں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حصہ شامل نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ نواز شریف کی مکمل صحت یابی 6 ہفتوں میں ناممکن ہے، جب کہ پاکستان، برطانیہ، امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کے طبی ماہرین کے مطابق نواز شریف کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو دل اور گردوں کے امراض لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے تیسرے درجے کی بیماری میں مبتلا ہیں، لہذا نواز شریف کو علاج کے لیے صرف پاکستان کے اندر پابند کرنے کے 26 مارچ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے نواز شریف کی درخواست پر ایک بیان میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج بڑے میاں صاحب کی بیماری کے ڈرامے کا بھی کلائمیکس آن پہنچا۔ بیرون ملک علاج کی درخواست سے ثابت ہو گیا کہ میاں صاحب جیل سے نجات اور لندن جانا چاہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو 26 مارچ کو سپریم کورٹ نے چھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں دی گئی سزا معطل کر دی تھی، لیکن بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی تھی۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو چھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، اس دوران نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ چھ ہفتے کی مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد ضمانت از خود منسوخ ہو جائے گی اور اگر اُس کے بعد نوازشریف نے خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا تو گرفتار کیا جائے گا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا ضمانت میں توسیع کی درخواست کے ساتھ سرنڈر کرنا قابل قبول نہیں ہو گا۔ تحریری فیصلے کے مطابق نواز شریف کی ضمانت کے لیے 4 شرائط عائد کی گئیں، جس کے تحت وہ دورانِ ضمانت ملک کے کسی بھی اسپتال سے اپنا علاج کرا سکتے ہیں۔