رسائی کے لنکس

نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کا حکم، بیرونِ ملک جانے پر پابندی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر ان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی ہوگی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کو 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نواز شریف کی ضمانت چھ ہفتوں کے بعد از خود ختم ہوجائے گی اور انہیں جیل جانا ہوگا۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی اور وہ یہ سزا لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے ہیں۔

نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جس ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نواز شریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی سماعت کے بعد عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے منگل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضمانت کی مدت کے دوران نواز شریف جہاں سے چاہیں اپنا علاج کراسکتے ہیں، لیکن انہیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

تاہم عدالت نے کہا ہے کہ چھ ہفتوں کی مدت کے بعد اگر نواز شریف چاہیں تو وہ دوبارہ ہائی کورٹ میں ضمانت پر رہائی کی نئی درخواست دائر کرسکیں گے۔

اس سے قبل منگل کو درخواست کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ سے اپنے مؤکل کی آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی تھی تاکہ وہ ان کے بقول قابلِ اعتماد ڈاکٹر سے علاج کراسکیں۔

منگل کو جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ آپ نے اضافی دستاویز جمع کرائی ہے؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی یہ ڈاکٹر لارنس کا خط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا یہ تو انہوں نے کسی ڈاکٹر عدنان کے نام لکھا ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے مزید بتایا ڈاکٹر عدنان نوازشریف کے ذاتی معالج ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ خط کس نےکس کو لکھا؟ یہ تو دو عام لوگوں کے درمیان کی خط و کتابت ہے۔ اس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ وہ اپنے کیس میں اس خط پر انحصار نہیں کر رہے۔ گزشتہ سماعت پر پانچ مختلف میڈیکل بورڈز کی رپورٹس پیش کی تھیں۔ رپورٹس میں واضح ہے نواز شریف کو دل اور گردوں کا عارضہ ہے۔

خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کی دل کی بیماری مزید بڑھ سکتی ہے۔ دل کا مرض پیچیدہ ہے۔ انجیو گرافی کرانے کی ضرورت ہے، شوگر اور ہائپرٹینشن کو مسلسل دیکھنا ضروری ہے۔ ان کو گردوں کی بیماری بھی اسٹیج تھری کی ہے۔ چوتھے درجے پر ڈائلسز درکار ہے اور پانچویں پر گردے فیل ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ہمارے سامنے کچھ نہیں۔ کیا ہم ایک خط پر انحصار کر لیں؟ اس پر وکیل نے کہا یہ ڈاکٹر نواز شریف کا علاج کرتا رہا ہے۔ اس کا خط مصدقہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی طبعیت خراب ہو گئی ہے۔ نواز شریف کی بیماری کے ثبوت میں ایک خط پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مریض 15 سال سے بیمار ہے۔ آپ کی بنیاد ہے کہ نواز شریف کی صحت اب خراب ہو رہی ہے۔ نواز شریف نے بیماری کے دوران بھی بہت مصروف زندگی گزاری۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان کے اسپتال اس قابل ہیں کہ ان کا علاج کر سکیں۔ آپ جو بھی اسپتال کہیں، ہم اس میں علاج کا حکم دے دیتے ہیں۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم باہر جانے کی اجازت نہیں بلکہ ضمانت مانگ رہے ہیں۔ علاج ہونا ہے۔ دماغ پر دباؤکو ضمانت سے دور کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ ذہنی دباؤ دور کرنا چاہ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر قیدی یہ دباؤ دور کرنا چاہے گا۔ اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا میڈیکل ہسٹری اور موجودہ صحت کی صورتِ حال پر ضمانت کی استدعا کر رہے ہیں۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی اپیل حتمی دلائل کے لیے مقرر ہو چکی ہے اور نیب نواز شریف کی سزا میں اضافے کی درخواست دے چکا۔ نواز شریف کی 24 گھنٹے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ نواز شریف کی زندگی کو خطرہ نہیں۔ نواز شریف کی انجیو گرافی پاکستان میں ہوسکتی ہے۔ اسپتالوں میں جدید ترین سہولتیں موجود ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب کے سارے ملزم بیمار کیوں ہو جاتے ہیں ؟ نیب اتنے ارب روپے ریکور کرتا ہے، ایک اچھا ہسپتال ہی بنا لے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اسد منیر کی مبینہ خودکشی سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ نیب ملزمان کو ذہنی دباؤ زیادہ دیتا ہے۔ نیب رویے کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے لگے ہیں۔ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو وقفے کے بعد سنایا گیا۔

XS
SM
MD
LG