ایسے میں جب روسی فوج نے یوکرین میں لڑائی کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور اسے کوئی خاص کامیابی بھی حاصل نہیں ہو رہی، روس کے حب الوطنی سے متعلق یادگار دن کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین پر لڑائی تھوپنے کےاپنے اقدام کا جواز پیش کیا ۔ تاہم انہوں نے نہ تو محدود فتح کی بات کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ یہ تنازع کس سمت جار رہا ہے۔
روسی سربراہ نے پیر کے دن ماسکو کےریڈ اسکوائر پر 'وکٹری ڈے 'پریڈ سے خطاب کیا۔ اس موقع پر فوجیوں نے مارچ پاسٹ کیا، فوجی سازو سامان کی نمائش کی گئی جب کہ براس بینڈ نے 1945ء میں سویت یونین کی جانب سے نازی جرمنی کو شکست دینے کے حوالے سے فتح کا دن منایا۔
اپنے خطاب میں پوٹن نے کوئی نیا لائحہ عمل پیش نہیں کیا کہ لڑائی بند کرنے سے متعلق ان کی سوچ کیا ہے۔ اس کے برعکس انھوں نے انہی الزامات کو دہرایا کہ یوکرین روس کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ جب کہ یوکرین کے مقابلے میں روسی فوج جوہری طاقت کی مالک ہے اور اسلحے اور تعداد کے اعتبار سے روس یوکرین کی افواج سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔
انھوں نے میدان جنگ کی کارروائیوں کی بھی کوئی نشاندہی نہیں کی ۔ پوٹن نے اپنے خطاب میں ایک بار بھی یوکرین کا نام نہیں لیا اوراسٹریٹیجک ا ہمیت کے ساحلی شہر ماریوپول پر قبضے کی لڑائی کا بھی ذکر نہیں کیا۔پوٹن ایک طویل عرصے سے نیٹو کی جانب سے مشرق کی جانب بڑھنے کا ذکر کرتے رہے ہیں جس میں سابق سویت جمہوریائیں شامل ہیں۔ بقول ان کے یوکرین کے ساتھ تصادم کی فضا جاری رہی ہے ، جسے فتح کرنا ''ناگزیر'' تھا۔
دریں اثنی، پیر کے روز وائٹ ہاؤس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی 'وکٹری ڈے' کی تقریر کو '' تاریخ کو اپنی مرضی سے بدل دینا'' کہہ کر مسترد کیا اور کہا کہ ان کا یہ کہنا کہ مغربی جارحیت یو کرین کی جنگ کا باعث بنی، " "واضح طور پر مضحکہ خیز" بات ہے۔نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ پوٹن کی تقریر تاریخ کو اپنی مرضی سے بدل دینے کےمترادف ہے، جس نے غلط معلومات کی صورت اختیار کر لی ہے۔
ادھر، یوکرین کے رہنما اور ان کے مغربی حامی ان دعووں کو مسترد کرتے آئے ہیں کہ روس کو یوکرین یا نیٹو کی جانب سے کوئی خطرہ لاحق تھا۔ لیکن اگر سویڈن اور فن لینڈ مغربی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں، جب کہ ان دونوں ملکوں کے اندر اس کے حق میں سوچ بڑھ رہی ہے، تو تناؤ کی صورت حال میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پوٹن نے کہا کہ یوکرین سے لاحق ''خطرے میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا تھا''۔ اس لیے،بقول ان کے، ''روس نے جارحیت کا پیشگی جواب دیا۔ہمیں اس پر مجبور کیا گیا۔ یہی بروقت اور درست فیصلہ تھا''۔انھوں نے ڈونباس کے حصول کی لڑائی کا حوالہ دیا، جب کہ ماسکو یوکرین کے دارالحکومت کیف کو ابھی تک زیر کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
روسی صدر نے کہا کہ ''یہ لڑائی دراصل روس کی تاریخی سرزمین کے دفاع کی لڑائی ہے''۔ لیکن، اس خطے میں بھی، جس کے لیے لوگوں کا خیال تھا کہ روس کچھ قابل ذکر فتوحات حاصل کرے گا، پیش رفت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔
متعد د تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پوٹن اپنے خطاب میں محدود فتح کا اعلان کریں گے۔ ممکنہ طور پر ماریوپول کے بارے میں، ایک ایسے وقت میں جب کہ وہ تنازع سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، ایسی بات کریں گے۔ کیونکہ روس کو مغرب کی سخت تعزیرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کے باعث اس کے مالی وسائل سکڑتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ پوٹن تنازع کو طول دینے کے لیے فوج کی تعداد میں اضافے کے لیے ملک بھر میں نئی بھرتیوں کا اعلان کریں گے۔ لیکن انہوں نے ان دونوں معاملات پر کوئی بات نہیں کی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ خطاب میں ان تکلیف دہ حقائق کی پردہ پوشی کی گئی جن کا پوٹن کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوکرین میں جاری کارروائی سے متعلق کوئی نیا منصوبہ پیش نہیں کیا گیا اور انھوں نے روسیوں سے یہ تک نہیں کہا کہ وہ معاشی تعزیرات اور سفارتی تنہائی کے مقابلے کے لیے قربانیاں دیں اور کمر بستہ ہوجائیں۔ انھوں نے یہ تک نہیں کہا کہ روسی فوج کا کافی جان نقصان ہوچکا ہے اور مزید فوج تعینات کی جائے گی۔
سکاٹ لینڈ کی یونیوسٹی آف سینٹ اینڈریوز میں اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پروفیسر، فلپس پی او برائن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ''نئی فورس تشکیل دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کی بات نہ کرکے، روس طویل عرصے تک لڑائی نہیں لڑ سکتا، اور یوں یوکرین میں اس کی فوج کی ناکامی واضح ہوتی جارہی ہے''۔
ایسے میں جب پوٹن نے ماسکو میں یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی، یوکرین کے دارالحکومت کیف میں فضائی حملے کے سائرن بجنے لگے۔لیکن، یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اپنے 'وکٹری ڈے' خطاب میں اعلان کیا کہ بالآخر ان کا ملک روس کو شکست دے گا۔
ویڈیو پر اپنے وکٹری ڈے خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ ''بہت جلد یوکرین میں دو وکٹر ی ڈے منائے جائیں گے''۔زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی کسی کے خلاف لڑائی نہیں کی۔ ہم ہمیشہ اپنے دفاع میں لڑتے رہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اس لیے جیت ہماری ہی ہو گی''۔
(خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)