یو کرین کی جنگ کے بارے میں اگر یہ گمان تھا کہ یہ دنوں میں ختم ہو جائے گی تو وہ غلط ثابت ہو چکا ہے۔24 فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا اور یوکرینی فورسز اور عوام اپنی سرزمین کا دفاع آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کئی گنا بڑی طاقت رکھنے کے باوجود روس بظاہراپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔
یوکرین کے شہر ماریوپول سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایزوسٹال اسٹیل ورکس میں بنے بنکرز میں پھنسے شہریوں پر روس کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور یوکرین کی افواج بھرپور جوابی کارروائی کر رہی ہیں۔
یو کرین کی دفاعی فورسز کے مطابق منگل کے روز روسی فورسز نے ماریو پول میں مذکورہ اسٹیل مل پر ہلہ بول دیا تھا جہاں یوکرینی فوجی دفاع کی آخری کوشش کر رہے ہیں اور بمباری کے دوران ہی درجنوں عام شہریوں کو نکالا جا چکا ہے۔
اوسنت لابرانی یوکرین میں انسانی ہمدردی کے کاموں کے لیے اقوامِ متحدہ کی رابطہ کار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عورتوں اور معمر افراد سمیت 101 افراد کو اس پلانٹ سے محفوظ مقام پر پہنچایا گیا ہے جب کہ ان میں 17 بچے بھی شامل ہیں اور سب سے کم عمر بچہ چھ ماہ کا ہے۔
ایزوسٹال اسٹیل ورکس میں بنے بنکرز سے باہر آنے والے ان لوگوں نے دو ماہ کے بعد دن کی روشنی دیکھی ہے۔ایک خاتون کا کہنا تھا وہ ہر رات یہ سوچ کر سوتی تھی کہ شاید صبح دیکھنی نصیب نہ ہو۔
ایمبولنسز اور بسوں کے قافلے کے ذریعے ماریوپول سے 230 کلومیٹر دور یوکرین کے قبضے والے شہرزیپروریزیا پہنچنے پر 54 سالہ ایلینا سیبلچینکو کا کہنا تھا" آپ اس خوف کا اندازہ نہیں کر سکتے جب آپ ایک تہہ خانے میں بمباری سے بچنے کے لیے بیٹھے ہوں اور اوپر دھماکے ہو رہے ہوں اور سب کچھ لرز رہا ہو۔"
وہ کہتی ہیں اس سے پہلے دو مقامات پر انہوں نے بم سے پڑے گڑھے دیکھے تھے۔ اگر ایسا ہی بم اس شیلٹر پر گرتا تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچتا۔
زیپروریزیا میں استقبالی سینٹر میں اسٹریچر اور ویل چئیرز بھی موجود تھیں اور بچوں کے لیے جوتے اور کھلونے بھی۔ میڈیکل ٹیمیں بھی منتظر تھیں اور نفسیاتی ماہرین بھی۔یہاں پہنچنے والے قافلے میں شامل اکثر افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بسوں سے نکل کر خیموں کی جانب بڑھے جو ہفتوں بعد ان کے لیے کچھ سکون کا مقام تھا۔ وہیں ان کے لیے گرم کھانا بھی تھا اور بیرونی دنیا سے رابطہ بھی۔ ماؤں نے چھوٹے بچوں کو کھانا کھلایا اور کچھ لوگ عطیہ کیے گئے کپڑوں میں اپنی ضرورت کے کپڑے تلاش کرنے لگے۔
لیکن جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان کے لیے خبریں بہت پریشان کن تھیں۔خبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یوکرینی کمانڈروں کا کہنا تھا کہ روسی فوجوں نے ٹینکوں کے ذریعے چار مربع میل پر پھیلے اس اسٹیل پلانٹ پر چڑھائی کردی تھی جہاں سویلینز کے ساتھ یوکرینی فوجی بھی بند ہو گئے تھے۔
اگرچہ ان فوجیوں کی کل تعداد واضح نہیں ہے مگر روس نے حالیہ ہفتوں میں ان کی تعداد دو ہزار بتائی تھی جن میں 500 زخمی تھے۔ چند سو سویلینز بھی وہاں موجود تھے۔
یو کرین کی نائب وزیرِ اعظم ارینا ویرسچک کا کہنا تھا،" ہم اس حملے کو پسپا کرنے کے لیے جو ممکن ہوا کریں گے۔ ہم نے اندر موجود سویلینز کو بحفاظت نکالنے کے لیے بھی فوری اقدامات کے لیے کہا ہے۔"
یو کرین کی ایزوف ریجمنٹ کے ڈپٹی کمانڈر سویاستوسلاو پالمر نے ٹیلیگرام ایپ پر اپنے پیغام میں کہا کہ پوری رات اس پلانٹ پر نیول آرٹلری سے گولہ باری ہوتی رہی اور فضائی حملے جاری رہے۔ ان کے مطابق روس کے ان حملون میں دو سویلین ہلاک اور 10 زخمی ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کی عہدیدار لابرانی کو مزید لوگوں کو نکال لینے کی توقع تھی مگر اس میں فی الحال انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔
ایزوسٹال اسٹیل ورکس پر یہ حملہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے اس حکم کے دو ہفتے بعد ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنے فوجیوں سے کہا تھا کہ وہ اس پلانٹ کا دفاع کرنے والوں کے خاتمے کے لیے اس پر حملہ نہ کریں۔ اب تک مختصر فائر بندی میں اقوامِ متحدہ اورریڈ کراس کی مدد سے صرف کچھ سویلین ہی اس سے باہر نکل سکے ہیں۔
( اس مضمون میں شامل معلومات خبر رساں ادارے' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں)