رسائی کے لنکس

جمشید دستی کے الزامات اور کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کا معاملہ؛ کیا پی ٹی آئی کی مشکلات کم ہوں گی؟


پاکستان میں عام انتخابات آئندہ ماہ آٹھ فروری کو شیڈول ہیں جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں، تاہم پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مشکلات برقرار ہیں۔

پی ٹی آئی کے بیشتر اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جا رہے ہیں جب کہ پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اُن کے اہلِ خانہ کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزامات بھی تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔

مظفر گڑھ سے پی ٹی آئی کے اُمیدوار جمشید دستی نے بھی ایک ویڈیو میں الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اور ریاستی اداروں کی جانب سے اُن کے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس سے قبل سیالکوٹ سے پی ٹی آئی کے سابق رہنما عثمان ڈار کی والدہ نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اُن کے گھر میں داخل ہو کر ایک بار پھر توڑ پھوڑ کی ہے۔

ترجمان مظفرگڑھ پولیس کے مطابق پولیس نے جمشید دستی کے گھر پر کوئی چھاپہ نہیں مارا۔ پولیس کے مطابق جمشید دستی اپنے اہلِ خانہ پر ہونے والے مبینہ تشدد کے حوالے سے درخواست دیں تو کارروائی کی جائے گی۔

ایسے میں پاکستان میں یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے کہ گزشتہ انتخابات میں میدان مارنے والی پی ٹی آئی کیا انتخابی دنگل میں شامل ہو سکے گی؟

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، صدر چوہدری پرویز الہٰی سمیت متعدد رہنما پابند سلاسل ہیں۔

پارٹی کے کئی رہنما نو مئی کے واقعات کے بعد سے ہی روپوش ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کی قیادت حال ہی میں ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن میں کامیاب ہونے والے بیرسٹر گوہر خان کو سونپی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سابق رہنما سردار لطیف کھوسہ بھی حال ہی میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔

'جان بوجھ کر کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جا رہے ہیں'

ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن کہتے ہیں کہ ریاستی مشینری کے سہولت کار انتظامی افسران بطور ریٹرننگ آفیسر پی ٹی آئی اُمیدواروں کے کاغذات جان بوجھ کر مسترد کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میدان چھوڑ کر نہیں جائے گی اور الیکشن کمیشن کے ہر بھونڈے حربے کا مقابلہ کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ کمیشن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کاغذات نامزدگی کے معاملے پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

'ایک پارٹی کے اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنا مناسب نہیں ہے'

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اپنا اپنا پورا زور لگا رہی ہیں کہ وہ اپنے بہترین امیدوار میدان میں اتاریں تاکہ جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے کاغذاتِ نامزدگی بڑے پیمانے پر مسترد ہوئے ہیں یہ کوئی مناسب بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے لیکن وہ عام طور پر خفیہ ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ انتخابات کی نسبت ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی فوج سیاست میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ جمہوری عمل کے تسلسل کی خواہاں ہے اور کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتی۔

'جن کے کاغذات مسترد ہوئے اُن کے پاس اب بھی موقع ہے'

تجزیہ کار اور کالم نویس افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی جن اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے ہیں اُن کے پاس اپیلیں دائر کرنے کا موقع ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کہا کہنا تھا کہ جن آر او صاحبان نے امیدواروں کے کاغذات مسرد کیے ہیں اُنہوں نے اپنے جواب میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہو گا زبانی کلامی کسی بھی امیدوار کے کاغذات رد نہیں ہو سکتے۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ ابھی اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے اور منظور ہونے کے خلاف اپیلوں کا مرحلہ جاری ہے جس کے بعد ہی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی نشان کے ساتھ امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دیں گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب تک سیاسی جماعتوں کی پوزیشن واضح نہیں ہوتی کہ کون کہاں کھڑا ہے اور کس کو کتنی لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہی ہے، اس وقت تک انتخابات کے بارے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے بیشتر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں جب کہ زیادہ توجہ پنجاب میں مسترد ہونے والے کاغذاتِ نامزدگی پر دی جا رہی ہے۔

کتنے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے؟

الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 25 ہزار 951 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔

ان میں سے تین ہزار 240 امیدواروں کے کاغذات منظور نہیں کیے گئے جب کہ 22 ہزار 711 امیدواروں کے کاغذات منظور کیے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک ہزار 24 اور صوبائی اسمبلیوں کے 2 ہزار 216 امیدواروں کے کاغذات منظور نہیں کیے گئے۔

ای سی پی کے مطابق پنجاب سے قومی اسمبلی کے 521، اسلام آباد کے 93، سندھ کے 166 امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے، خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 152، بلوچستان سے 92 سیٹوں پر امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے ہیں۔

اِسی طرح صوبائی اسمبلی پنجاب سے 943، سندھ اسمبلی سے 520، صوبائی اسمبلی بلوچستان سے 386 اور خیبرپختونخوا اسمبلی سے 367 امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی منظور نہیں کیے گئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG