واشنگٹن —
ایران کے صدر نے کہا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جولائی تک اُن کے ملک کے جوہری پروگرام پر بندش لاگو کرنے سے متعلق ایک مربوط سمجھوتا طے پا جائے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے جمعرات کے دِن نامہ نگاروں کو بتایا کہ سمجھوتا طے پا سکتا ہے، لیکن اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کچھ ممالک کو ،جِن کی وضاحت نہیں کی گئی، مسائل کھڑے کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
صدر روحانی کے بقول، ’اگر ہم اِس حتمی تاریخ تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچتے، تو ہم اس معاملے کو اگلے چھ ماہ تک بڑھا سکتے ہیں۔ ہم ایک مربوط سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں محو ہیں۔ لیکن، پچھلے چند روز سے ہمیں جو علامات اور اشارے مل رہے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ عین ممکن ہے، جولائی کے آخر تک ہم کسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں‘۔
مسٹر روحانی کے اِس بیان سے ایک ہفتہ قبل، ایران اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا دور ناکامی سے ہم کنار ہو چکا ہے۔
ایرانی صدر کے الفاظ میں، ’اگر اِس (بات چیت) میں کامیابی نہیں ہوتی، تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرا فریق ضد پہ اڑا ہوا ہے، کیونکہ میری حکومت معقولیت کی راہ اپنانے پر تیار ہے۔ (وہ) باقی دنیا کے ساتھ گفت و شنید اور دیگر اقوام سے تعاون کے لیے تیار ہے‘۔
بدھ کے دِن، جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) نے کہا ہے کہ ایران نے دھماکہ خیز مواد اور دیگر سرگرمیوں سے متعلق سوالات پر دھیان دینے پر تیار ہے، جس کے بارے میں مغرب کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تشکیل دے رہا ہے۔
جوہری توانائی کےبین الاقوامی ادارے سے ایران کی بات چیت چھ عالمی طاقتوں سے جاری مذاکرات کے علاوہ ہے، لیکن دونوں کا مطمع نظر یہی ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھا جائے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے جمعرات کے دِن نامہ نگاروں کو بتایا کہ سمجھوتا طے پا سکتا ہے، لیکن اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کچھ ممالک کو ،جِن کی وضاحت نہیں کی گئی، مسائل کھڑے کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
صدر روحانی کے بقول، ’اگر ہم اِس حتمی تاریخ تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچتے، تو ہم اس معاملے کو اگلے چھ ماہ تک بڑھا سکتے ہیں۔ ہم ایک مربوط سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں محو ہیں۔ لیکن، پچھلے چند روز سے ہمیں جو علامات اور اشارے مل رہے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ عین ممکن ہے، جولائی کے آخر تک ہم کسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں‘۔
مسٹر روحانی کے اِس بیان سے ایک ہفتہ قبل، ایران اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا دور ناکامی سے ہم کنار ہو چکا ہے۔
ایرانی صدر کے الفاظ میں، ’اگر اِس (بات چیت) میں کامیابی نہیں ہوتی، تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرا فریق ضد پہ اڑا ہوا ہے، کیونکہ میری حکومت معقولیت کی راہ اپنانے پر تیار ہے۔ (وہ) باقی دنیا کے ساتھ گفت و شنید اور دیگر اقوام سے تعاون کے لیے تیار ہے‘۔
بدھ کے دِن، جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) نے کہا ہے کہ ایران نے دھماکہ خیز مواد اور دیگر سرگرمیوں سے متعلق سوالات پر دھیان دینے پر تیار ہے، جس کے بارے میں مغرب کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تشکیل دے رہا ہے۔
جوہری توانائی کےبین الاقوامی ادارے سے ایران کی بات چیت چھ عالمی طاقتوں سے جاری مذاکرات کے علاوہ ہے، لیکن دونوں کا مطمع نظر یہی ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھا جائے۔