امریکہ کے صدر براک اوباما نے یوکرین کے عوام کو کامیاب انتخابات کے انعقاد پر مبارکباد دی ہے۔
اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کی حامی قوتوں کو اس میں واضح برتری حاصل ہو رہی ہے۔
مشرقی یوکرین میں ملک کی سکیورٹی فورسز اور روس نواز باغیوں کی لڑائی سے "سلامتی کی صورتحال" کے تناظر میں صدر اوباما نے پولنگ کو "منظم اور پرامن" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ "بہت حد تک بین الاقوامی معیار کے مطابق تھی"۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق "روس کی طرف سے کرائمیا پر قبضے اور مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسند بہت سے شہریوں کو ان کا جمہوری حق استعمال کرنے سے روک رہے ہیں"۔ صدر اوباما نے ماسکو پر زور دیا کہ وہ ڈونٹسک اور لوہانسک میں کیئف کی طرف سے سات دسمبر کو اعلان کردہ انتخابات میں لوگوں کو آزادانہ رائے شماری کی اجازت دے۔
بظاہر ان اطلاعات پر کہ باغی دو نومبر کو اپنے طور پر انتخابات منعقد کرنے جا رہے ہیں، اوباما کا کہنا تھا کہ "امریکہ علیحدگی پسندوں کے علاقوں میں ایسے کسی بھی انتخاب کو قبول نہیں کرے گا جو یوکرین کے قانون کے مطابق نہ ہوں۔"
اتوار کو ہونے والے انتخابات کو "یوکرین کی جمہوری ترقی میں ایک سنگ میل" قرار دیتے ہوئے امریکی صدر نے یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کا عزم بھی دہرایا۔
65 فیصد سے زائد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد یوکرین کے مرکزی الیکشن کمیشن کے مطابق وزیراعظم اسینے یتسنیوک کی جماعت پاپولر فرنٹ پہلے نمبر پر ہے اور اسے 22 فیصد ووٹ ملے ہیں جب کہ صدر پیٹرو پورشنکو کی قیادت میں بننے والے الیکٹورل بلاک کے حصے میں فی الوقت 21 فیصد ووٹ آئے ہیں۔