رسائی کے لنکس

15 سالہ لڑکے کی فائرنگ سے ایک احمدی ہلاک تین زخمی


کئی مذہبی گروپ احمدیوں کے خلاف ریلیاں نکالتے رہتے ہیں۔
کئی مذہبی گروپ احمدیوں کے خلاف ریلیاں نکالتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں ایک 15 سال کے لڑکے نے مبینہ طور پر احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملہ کر دیا۔ حملے کے نتیجے میں مبینہ طور پر ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔

پولیس کے مطابق ضلع ننکانہ صاحب کے گاؤں مڑ بلوچاں میں احمدی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے تین چار گھر ہیں جو آپس میں رشتے دار بھی ہیں۔ وہ ایک گھر میں اپنے عقائد کے مطابق جمعہ کے روز مذہبی رسومات کے لئے جمع تھے۔ جس کے بعد جونہی وہ گھر سے باہر نکلنے لگے تو گلی میں موجود ایک 15ؕ یا 16 سالہ لڑکے نے اُن پر فائرنگ کر دی۔

فائرنگ کے نتیجے میں ڈاکٹر طاہر محمود موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ جن کی عمر 21 سال بتائی جاتی ہے۔ جب کہ فائرنگ کے نتیجے میں ڈاکٹر طاہر محمود کے والد 55 سالہ طارق احمد اور دو مزید افراد زخمی ہو گئے۔

پولیس کےمطابق اُنہوں نے فائرنگ کرنے والے لڑکے مہد ولد عظمت اللہ کو حراست میں لے لیا ہے، جس سے واقعہ میں استعمال ہونے والا 30 بور کا اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔

پولیس اسٹیشن سانگلہ ہل کے مطابق واقعہ کی ایف آئی آر ابھی تک درج نہیں ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن سانگلہ ہل کے کانسٹیبل محمد خاں نے کہا کہ واقعہ سے متعلق ابھی تک کسی نے رابطہ نہیں کیا، تاہم مبینہ قاتل لڑکے کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے۔

ربوہ میں احمدی فرقے کی عبادت گاہ
ربوہ میں احمدی فرقے کی عبادت گاہ

پولیس کے مطابق:

“جو بندے زخمی ہوئے ہیں وہ فیصل آباد میں ہیں۔ ہمارے افسر بھی وہیں پر ان کے پاس ہیں۔ اِس واقعہ میں تین آدمی زخمی ہوئے ہیں جب کہ ایک بندہ قتل ہو گیا ہے۔ پولیس کو جیسے ہی درخواست موصول ہو گی، ایف آئی آر درج کر لی جائے گی”۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کہتے ہیں کہ ایک 16 سال کے لڑکے نے یہکامکیا ہے۔ملک میں لوگوں کی برین واشنگ کر کے ایک مائنڈ سیٹ بنا دیاگیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم الدین نے کہا کہ سولہ سال کے لڑکے کو پتا بھی نہیں ہو گا کہ احمدیوں کے عقائد کیا ہیں۔ وہ کیا کرتے ہیں اور کس طرح سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ احمدیوں کو جان سے مارنے کا اس سال کا یہ پانچوں واقعہ ہے۔

“بس اُس کے ذہن میں جو بات بٹھا دی گئی اُس نے وہ عمل کر دیا۔ اِس طرح کے واقعات اب گلی محلوں میں ہوں گے۔ جس طرح کا بیانیہ یہاں چل رہا ہے اور جو بات کی جاتی ہے، اس کو روکا نہیں جا رہا۔ خاص طور پر اشتعال انگیزی کو روکانہیں جا رہا۔ ہر تقریر میں، ہر جلسے اور جلوس میں جب احمدیوں کو واجب القتل کہا جائے گا تو پھر کوئی بھی کسی بھی وقت قتل کر سکتا ہے”۔

واضح رہے کہ چند دن قبل ضلع خوشاب میں ایک بینک کے سکیورٹی گارڈ نے مذہب کی بنیاد پر اپنے ہی بینک مینیجر کو قتل کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG