'بچپن میں جب میں تعلیم کے لیے اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں جایا کرتی تھی تو علاقے کے افراد میرے خاندان کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ تعلیم کی خاطر میرا گاؤں سے نکلنا، لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا'۔
یہ الفاظ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خاتون شہناز بھٹو کے ہیں۔ جو اتوار کو ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہی ہیں۔
خواتین عموماً مخصوص نشستوں کے لیے ہی کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتی ہیں۔ لیکن 15 نومبر کو ہونے والے گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں چار خواتین ایسی بھی ہیں جو جنرل نشستوں پر انتخابات لڑ رہی ہیں۔
شہناز بھٹو بھی انہی میں سے ایک ہیں اور آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
شہناز پر امید ہیں کہ تعلیم کی طرح ان کا انتخابات میں حصہ لینا ان کے گاؤں کے لوگوں میں شعور اجاگر کرے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شہناز بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے تعلیم کے لیے گھر سے نکلنے کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں میں بچیوں کی تعلیم کا شعور پیدا ہوا۔ جس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔
شہناز کا مزید کہنا تھا کہ ان کی الیکشن مہم سے گلگت بلتستان کی خواتین بہت خوش ہیں۔ کیوں کہ ابھی تک ان کے علاقے کے لوگوں نے کسی خاتون امیدوار کو اس طرح الیکشن مہم چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
شہناز بھٹو کے مطابق ضلع غذر کی تحصیل پھنڈر کی خواتین ان سے کہتی ہیں کہ اس سے قبل انہوں نے اس علاقے سے اپنے بیٹوں کو ووٹ دیا۔ لیکن مڑ کر کسی نے بھی ان کے مسائل کے بارے میں ان سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔ اس دفعہ ان کی بیٹی ووٹ لینے کے لیے آئی ہے تو وہ ان کا ساتھ ضرور دیں گے۔
اٹھائیس ہزار مربع میل پر محیط گلگت بلتستان کی آبادی لگ بھگ 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جسے 10 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے۔ جن میں 4 لاکھ 5 ہزار 363 مرد اور 3 لاکھ 39 ہزار 998 خواتین ووٹرز ہیں۔
اتوار کو گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی 24 میں سے 23 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ ایک حلقے میں امیدوار کے انتقال کی وجہ سے وہاں 23 نومبر کو انتخابات ہوں گے۔
شہناز بھٹو کے مطابق ان کی نظر میں سیاست پیسے کمانے کا نام نہیں بلکہ دل سے لوگوں کی خدمت کا نام ہے اور سیاست میں لوگوں کے ساتھ قریب سے بیٹھ کر ان کے مسائل سے آگاہی ہوتی ہے۔
ان کے بقول یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مخصوص نشست کی بجائے براہ راست الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
ضلع تانگیر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر براہ راست الیکشن لڑنے والی سعدیہ دانش گلگت بلتستان کے انتہائی قدامت پسند علاقے سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان کی الیکشن مہم ان کے پارٹی کے رضا کار چلا رہے ہیں۔
یہ خوبصورت وادی مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بہت مشہور ہے۔ تاہم یہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ 2009 کے الیکشن کے دوران یہاں معمولی تکرار پر چار افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سعدیہ دانش نے بتایا کہ ان کی پیدائش پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں ہی ہوئی ہے۔ ان کے شوہر رمضان علی دانش کا شمار بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شوہر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نے ان سے گلگت بلتستان سے عملی سیاست میں حصہ لینے پر زور دیا۔
سعدیہ دانش کے مطابق گلگت بلتستان میں خواتین کے حوالے سے سیاست میں عملی کردار انہوں نے شروع کیا۔ جسے بعد میں دوسری پارٹیوں نے فالو کیا۔ وہ 2009 میں پیپلز پارٹی کی مخصوص نشست پر نامزد ہوئیں اور انفارمیشن، اسپورٹس، ٹورزم اور ویمن ڈویلپمنٹ کی وزیر رہیں۔
سعدیہ دانش کے مطابق انہیں ضلع تانگیر سے ٹکٹ دینے کا مقصد ہی ہہی تھا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے اور ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جس سے خواتین کو شناخت مل سکے۔
ان کے مطابق ان کے لیے چیلنجز بہت ہیں۔ کیوں کہ جب وہ کاغذات نامزدگی جمع کرا رہیں تھیں تو بھی کچھ حلقوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دھمکیوں کی وجہ سے وہ ابھی تک اپنے حلقے میں نہیں گئیں۔ تاہم ان کے پارٹی کارکن ان کے لیے گھر گھر جا کر مہم چلا رہے ہیں۔
سعدیہ دانش کا کہنا ہے کہ ان کا قدامت پسند علاقے سے انتخابات میں حصہ لینا بارش کا وہ پہلا قطرہ ثابت ہو گا۔ جس سے عوام کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
گلگت بلتستان سے شہناز بھٹو اور سعدیہ دانش کے علاوہ تحریک انصاف کی آمنہ انصاری گانچے اور جمعیت علما اسلام (ف) سے مہناز ولی وادی ہنزہ سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ دونوں امیدوار اپنی جیت کے لیے پُرعزم ہیں۔
ضلع گانچے سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی محمد علی عالم کے مطابق آمنہ انصاری اپنے حلقے میں بھر پور مہم چلا رہی ہیں تاہم انہیں شائد 2015 والی پوزیشن نہ مل سکے۔
یاد رہے کہ 2015 کے الیکشن میں بھی آمنہ انصاری نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر براہِ راست انتخابات میں حصہ لیا تھا اور بہت کم ووٹوں سے انہیں شکست ہوئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد علی عالم نے بتایا کہ اس دفعہ آمنہ انصاری کی پوزیشن واضح نہیں ہے کیوں کہ تحریک انصاف کے لیے امان اللہ خان نے پارٹی کے ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں آمنہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ انتخابات میں 'نور بخشی' مسلک نے آمنہ انصاری کا ساتھ دیا تھا۔ جب کہ اس مرتبہ وہ امان اللہ خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ان کے بقول اس لیے آمنہ انصاری کی پوزیشن حکمران جماعت سے تعلق کے باوجود بھی قدرے تسلی بخش نہیں ہے۔
صحافی محمد علی عالم کے مطابق گانچے ضلع میں 90 فیصد سے زائد افراد کا تعلق 'نور بخشی' مسلک سے ہے۔ ان کے مطابق ضلع گانچے میں امان اللہ خان (آزاد امیدوار)، حاجی عبد الحمید (آزاد امیدوار) اور آمنہ انصاری (پی ٹی آئی )کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔