رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت کی جانب سے بدھ کو رات گئے تین ہفتوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیسرا بڑا اضافہ کیا گیاہے۔

حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 234 روپے ہوگئی ہے جب کہ ڈیزل 59 روپے مہنگا ہونے کے بعد 265 روپے کا فروخت ہوگا۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا اگرچہ یہ کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کرنا حکومت کی مجبوری ہے اور اس کی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیا گیا وہ بدترین معاہدہ ہے جو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے کیا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بھی ایندھن اور توانائی کے شعبوں میں دی جانےوالی سبسڈی کو معاہدے سے انحراف کہا گیا تھا۔

ایسے میں عوامی حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر آئی ایم ایف قرض دینے کے بدلے حکومت کو تیل کی قیمتیں بڑھانے، بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے اور پرسنل انکم ٹیکس بڑھانے جیسے مطالبات ماننے پر کیوں مجبور کررہا ہے؟

حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں اور حزبِ اختلاف کے درمیان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ 29 فی صد اضافے پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔

اسی طرح دونوں جانب سے بجلی کے شعبے میں بدانتظامی، غلط معاہدوں سے گردشی قرضہ بڑھنے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی فنڈ سے قرض کے حصول کے لیے یہ شرائط ماننا ضروری ہیں۔

دوسری جانب اس حوالے سے ماہرینِ معاشیات الگ رائے رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی ملک آئی ایم ایف سے قرض لیتا ہے تو آئی ایم ایف کسی قسم کی شرط عائد نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ اُسے قرض سود کے ساتھ واپس مل جائے گا۔

ان کے مطابق اس کے لیے آئی ایم ایف کا اصرار یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنے دو قسم کے خساروں پر قابو پالیں تو ہمارا قرض لوٹانے میں آسانی ہوگی۔ ان میں سے ایک بجٹ خسارہ اور دوسرا جاری کھاتوں کا خسارہ شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی خسارے کی وجہ سے تو کوئی ملک آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے جاتا ہے اور یہی پاکستان کے معاملے میں بھی ہوا ہے۔

ڈاکٹر عبدالجلیل نے مزید کہا کہ جب حکومت ان خساروں پر قابو پانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی تو حکومت آئی ایم ایف کو کہتی ہے کہ فی الحال ادھار واپس نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پیسے ری کور نہیں ہو پا رہے، ہم خسارے میں ہیں۔ ان کے مطابق دوسرے قدم میں آئی ایم ایف معلوم کرتا ہے کہ محاصل اور اخراجات کیا ہیں۔ پھر حکومت آئی ایم ایف کو بتاتی ہے کہ وہ کس کس شعبے میں کس قدر اخراجات کر رہی ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حکومت بتاتی ہے کہ بجلی پر کتنی سبسڈی دی جارہی ہے۔ ٹیکس کلیکشن کتنی ہو رہی ہے۔ ٹیکس کون کون سے شعبوں سے وصول کیے جا رہے ہیں اور کون کون سے طبقات سے وصول نہیں کیے جارہے، وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر عبدالجلیل کے مطابق اگر اشیا عالمی منڈی سے زیادہ قیمت میں خرید کر مفت یا کم قیمت پر دی جا رہی ہوں، ریونیو کے اہداف حاصل نہ ہو رہے ہیں یا اخراجات حد سے زیادہ ہونا شروع ہو جائیں تو یہ سب حکومت ہی کی نااہلی ہوتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے جواب میں آئی ایم ایف قرض دینے سے قبل پیشگی اقدامات سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ خسارے کو کم کرنے کے لیے کس کس چیز کو مہنگا کرنا ہے۔ ٹیکس ریونیو کیسے جمع کرنا ہے، کہاں پر ٹیکس چھوٹ دینی ہے اور کہاں نہیں۔ اس چیز کو جب عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے تو حکومت بتاتی ہے کہ یہ آئی ایم ایف نے کہا ہے لیکن درحقیقت یہ آئی ایم ایف نے نہیں کہا ہوتا بلکہ یہ حکومت کی اپنی معاشی کمزوری، بدانتظامی اور کم وسائل کے باوجود شاہانہ اخراجات کا شاخسانہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالجلیل نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف سمیت کسی کو بھی اس سے کیا سروکار ہو سکتا ہے کہ ملک میں بجلی سستی ہے یا مہنگی۔ یا انہیں اس سے کیا ملے گا کہ ملک میں کوئی ٹیکس دے رہا ہے یا نہیں۔ اس کی صرف اور صرف ایک ہی تشویش ہوتی ہے کہ فنڈ کی جانب سے دیا گیا قرض بشمول سود کیسے واپس ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس دنیا بھر کے اُن ممالک کے پیسے ہوتے ہیں جو اس ادارے کو فنڈنگ کرتے ہیں اور آئی ایم ایف سے یہ ممالک حساب لیتے ہیں کہ ان کا پیسہ کب اور کیسے واپس ہورہا ہے؟ اسی حساب سے وہ حکومتوں کو راستے بتاتا ہے جس پر عمل کرکے ہی قرض کا حصول ممکن ہوپاتا ہے۔

معاشی امور کے ایک اور ماہر اور وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب کا بھی خیال ہے کہ کوئی بھی ملک معاشی خسارے کی وجہ سے معاشی عدم استحکام پیدا ہونے کی صورت میں قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے اور ایسی صورت میں آئی ایم ایف کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ قرض اسی صورت میں ملے گا جب آپ اپنے خساروں پر قابو پانے کے لیے ہماری تجاویز پر عمل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان تجاویز کا تعلق سبسڈی کا خاتمہ کرکے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات وغیرہ کی قیمتوں میں تبدیلیوں سے ہوتا ہے۔ کیوں کہ فنڈ کے خیال میں خساروں کی وجہ سے سبسڈی دینے کی گنجائش ختم یا کم ہوجاتی ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف تجویز کرتا ہے کہ یہ سبسڈی ختم کی جائے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے پیدا ہونے والے اثرات سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اس (اضافے) کے علاوہ آئی ایم ایف سے پی ٹی آئی حکومت میں کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کے کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ سے یہ بدترین معاہدہ کیا اور برے معاشی فیصلے کیے، وہ کیسے معصومیت کا بہانہ کرسکتے ہیں

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ملک اس بحران سے جلد نکل جائے گا۔


کئی معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ ان کے خیال میں معیشت کو جاری کھاتوں کے خسارے سے بچانے کے لیے غیر ضروری اور پر تعیش اشیا کی درآمدات پر مکمل اور کئی سال تک پابندی عائد کرنی ہوگی۔

ماہرین کے مطابق اشرافیہ کو زیادہ ٹیکس دینے پر قائل کرنا ہوگا۔ٹیکس چوری جو وزیرِ خزانہ کے مطابق تین ہزار ارب روپے تک ہے، کو روکنا ہوگا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ زرعی شعبے میں بڑے جاگیرداروں سے ٹیکس کا حصول بڑھانا ہوگا۔ بعض کے خیال میں دفاعی شعبے میں بھی غیر جنگی اخراجات میں فوری کٹوتی کرنی ہوگی تاکہ حکومت کے معاشی خساروں کو پورا کرنے کے لیے بوجھ عام آدمی کی جیب پر کم سے کم پڑے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG