شمالی وزیرستان سے ملحقہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میں داخل ہوتے ہی جہاں ایک طرف سامان سے لدی چھوٹی بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کا رش دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف تاحد نظر قطاروں میں کھڑے مرد دکھائے دیتے ہیں جو راشن کے حصول کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔
شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے باعث چار لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد اب تک خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
شدید گرم موسم میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر آنے والے ان افراد کو بنوں میں جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں خصوصاً ان کے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں جو ان کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن گیا ہے۔
بنوں میں سرکاری اسپتال ویمن اینڈ چلڈرن ہاسپیٹل کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر حبیب اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں خاندانوں کے تقریباً دو ہزار بچے اور خواتین اب تک ان کے اسپتال میں علاج کے لیے آ چکے ہیں۔
"ان بچوں نے کافی دور کا سفر کیا ہے اور پیدل آئے ہیں ان کو کافی وقت لگا ہے انتظار میں گرمی میں تو اکثر کو پیٹ کی بیماریاں ہیں اور خسرہ بھی ہے قبائلی علاقہ جات میں ویکسینیشن نہیں ہوئی ہے اور اس لیے ویکسینیشن نہ پلانے کی وجہ سے ان بچوں کو یہ سب بیماریاں بھی لاحق ہیں۔"
شہر کا ایک بڑا اسپتال ہونے کی وجہ سے یہاں مریضوں کا ویسے بھی بے پناہ رش رہتا ہے لیکن ڈاکٹر حبیب اللہ کے بقول مقامی افراد میزبانی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شمالی وزیرستان سے آنے والوں کی اسپتال میں بھی مدد کر رہے ہیں۔
"ہمارے لوگ اتنے مخلض ہیں بنوں والے کہ وہ اپنا بستر چھوڑ کر یہ کہتے ہیں کہ اس بستر پر میران شاہ یا میر علی والے بچے کو جگہ دے دیں۔ ایک آدمی کو دوائی کی پرچی ملی وہ بنوں کا رہنے والا تھا کہ دوائی اسپتال سے لے لو تو اس نے کہا کہ میری اتنی استطاعت ہے کہ میں بازار سے خرید لوں گا۔ اب میری یہ چٹ والی دوائی نقل مکانی کرنے والوں کو دے دیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں جیسے جیسے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی تعداد بڑھے گی ان کے ہاں بھی مریضوں کا رش بڑھ سکتا ہے لیکن ڈاکٹر حبیب کے بقول ان کے اسپتال میں تمام انتظامات مکمل ہیں اور وہ لوگ ایسی صورتحال کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
بے گھر افراد کے لیے بنوں میں قائم سرکاری کیمپ میں اب بھی صرف پچاس کے لگ بھگ خاندانوں نے رہائش اختیار کی ہے جن کے لیے ڈاکٹر اور طبی عملہ یہاں تین مختلف شفٹس میں فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
دوسری طرف نقل مکانی کرنے والوں میں اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے بہت سے عزیز رشتے دار اب بھی شمالی وزیرستان میں ہی پھنسے ہوئے ہیں جن کی خیریت سے متعلق انھیں تشویش لاحق ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرکے آنے والوں کی ہر ممکن مدد اور انھیں سہولت فراہم کرنے کے لیے تمام متعلقہ ادارے مربوط انداز میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں آئندہ دنوں میں مزید بہتری آجائے گی۔