اپنے حالیہ دورہ انگلینڈ میں میچ فکسنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والے تین پاکستانی کرکٹرز میں سے سلمان بٹ اور محمد آصف شائقینِ کرکٹ کیلیے جانے پہچانے چہرے ہیں، جبکہ نوجوان محمد عامر کو قومی کرکٹ کے افق پر ایک ابھرتا ہوا ستارہ قرار دیا جارہا تھا۔ برطانیہ میں اسپاٹ فکسنگ کے الزامات میں زیرِ تفتیش ان تینوں کھلاڑیوں کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:
محمد عامر
اٹھارہ سالہ محمد عامر نے گزشتہ ہفتے ہی پچاس وکٹیں حاصل کرنے والے سب سے کم عمر ٹیسٹ بائولرکا اعزاز حاصل کیا ہے۔ انہوں نے یہ اعزاز اپنے ہی ہم وطن اور حالیہ کوچ وقار یونس سے چھینا ہے جو اس سے قبل بیس سال کی عمر میں یہ ریکارڈ بنا پائے تھے۔ عامر نے یہ ریکارڈ انگلینڈ کے خلاف پاکستان کے آخری ٹیسٹ کے دوسرے دن بنایا تھا اور اگلے ہی دن وہ اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کی زد میں آگئےتھے۔
گیارہ سال کی عمر سے مختلف لیولز پہ باقاعدہ کرکٹ کھیلنے والے لیفٹ آرم فاسٹ بائولر محمد عامر بہت تیزی سے آگے بڑھے اور کم عمری میں ہی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے محمد عامر صرف کرکٹ سیکھنے اور کھیلنے کے جنو ن میں اپنے آبائی قصبے گوجر خان سے راولپنڈی آن پہنچے تھے۔
عامر اس سے قبل پاکستان کی انڈر 19 کیلیے کھیلتے رہے ہیں۔ انہیں پہلی بار گزشتہ سال جولائی میں سری لنکا کے خلاف میچ کیلیے قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس وقت سے اب تک عامر اپنے 14 ٹیسٹ میچز میں 51 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔
سلمان بٹ
پچیس سالہ سلمان بٹ اس سال 17 جولائی کو پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے اس وقت حق دار قرار پائے جب ان کے پیش رو شاہد آفریدی آسٹریلیا کے ہاتھوں اپنی ٹیم کی شکست سے دلبرداشتہ ہوکر اچانک ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر بیٹھے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سلمان بٹ پہلے پاکستان کی انڈر 17 ٹیم کی طرف سے کھیلتے رہے ہیں۔ لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین کی قسمت کا ستارہ اس وقت چمکا جب انہیں 2003 میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے میچ کیلیے قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ اگلے ہی سال بٹ نے 2004 میں بھارت کے خلاف میچ میں اپنی پہلی ون ڈے سنچری اسکور کرکے شائقینِ کرکٹ کی توجہ حاصل کرلی۔ 2004 کے اختتام ہی پہ سڈنی میں اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری اسکور کرکے سلمان بٹ نے قومی ٹیم میں سلیکٹرز کی جانب سے اپنی شمولیت کا جواز فراہم کردیا۔
سلمان بٹ اب تک 33 ٹیسٹ میچز میں 1889 رنز اسکور کرچکے ہیں جبکہ ان کا کیریئر بیسٹ 122 رنز ہے۔
محمد آصف
ستائیس سالہ رائٹ آرم میڈیم فاسٹ بائولر محمد آصف کیلیے یہ پہلا موقع نہیں جب وہ کسی تنازعہ کا شکار ہوئے ہوں۔ آصف اور اسکینڈلز کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ شیخوپورہ کے ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد آصف کو مقامی کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھانے کی بدولت پہلی بار 2005 میں آسٹریلیا کے خلاف قومی کرکٹ اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ تاہم میچ میں 18 اوورز کرانے کے باوجود ایک بھی وکٹ کے حصول میں ناکامی کے باعث آصف آئندہ ایک سال تک قومی ٹیم میں اپنی دوبارہ شمولیت کے منتظر رہے۔
2006 میں آصف کو لیسٹرشائر کی طرف سے انگلش کائونٹی کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا۔ تاہم دورانِ سیریز ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد اگلے ایک سال تک ان کے کرکٹ کھیلنے پہ پابندی عائد کردی گئی۔ بعد ازاں آصف کی جانب سے دائر کردہ اپیل کے جواب میں ان پہ لگائی گئی پابندی اٹھالی گئی۔
دو سال بعد 2008 میں آصف انڈین پریمیئر لیگ میں شمولیت کے حقدار قرار پائے لیکن بدقسمتی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ڈوپ ٹیسٹ ایک بار پھر مثبت آنے کے بعد ان پر دو سال کی پابندی عائد کردی گئی۔ یہ پابندی ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ ایک مقامی فنکارہ کے ساتھ مالی تنازعے کا شکار ہونے کے باعث ایک بار پھر آصف خبروں کی سرخیوں میں جگہ بنانے لگے۔ فنکارہ نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ اس کے کئی لاکھ روپے کا مقروض ہیں اور اب رقم کی ادائیگی سے انکاری ہیں۔
تاہم آصف "خود پہ کنٹرول رکھنے " کا وعدہ کرکے ایک بار پھر شائقینِ کرکٹ اور قومی کرکٹ ٹیم کے سلیکٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ حال ہی میں انٹرنیشل کرکٹ میں اپنی شاندار کارکردگی کے باعث انہیں آئی سی سی کی عالمی بالرز رینکنگ میں بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیابی ملی۔ آصف اب تک 23 کیریئر ٹیسٹ میچز میں 106 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔