پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی اور وسطی اضلاع ان دنوں ٹڈل دل کے حملے کی زد میں ہیں۔ جس کے باعث سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
ٹڈی دل اِس سے قبل صوبہ سندھ میں کھیتوں پر حملہ کر کے فصلوں کو نقصان پہنچا چکا ہے۔
پنجاب کی صورت حال
پنجاب کے وسطی زرعی اضلاع ساہیوال، وہاڑی، پاکپتن اور اوکاڑہ سمیت متعدد شہروں میں ٹڈی دل حملہ آور ہے۔
کے باعث مکئی، گندم، دھان، سرسوں اور آلو سمیت فصلوں کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹڈی دل کے حملے کے باعث کسان خاصے پریشان ہیں۔
ضلع پاکپتن کے زمین دار راؤ حامد علی خان کہتے ہیں کہ ٹڈی دل نے حملے کر کے سیکڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا ہے۔
راؤ حامد علی خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن سمیت دیگر کسانوں کے پاس ٹڈی دل سے نمٹے کے لیے مناسب ادویات نہ ہونے کے باعث وہ شور مچا کر ٹڈی دل کو بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
راو حامد علی خان نے بتایا کہ اُن کے علاقے پاکپتن اور عارف والہ میں ٹڈی دل گزشتہ دو تین روز سے گھوم رہی تھی کہ اچانک پیر کو حملہ کر دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اُنہیں افسوس اِس بات کا ہے حکومت پنجاب یا محکمہ زراعت کی طرف سے ٹڈی دل کے حملے کی زد میں آنے والے زمین داروں کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔
ان کے بقول آج کل موبائل کا زمانہ ہے کسان تو ریڈیو بھی سنتے رہتے ہیں لیکن کہیں بھی کسی جگہ بھی کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل سبز پتوں والی فصلوں پر حملہ کرتی ہے۔ اِس وقت ہماری گندم کی فصل لگی ہوئی ہے۔ آلو کی فصل تیاری کے آخری مراحل میں ہے وہ بھی ہلکی سی سبز ہے۔
ان کے مطابق اِس کے بعد سرسوں اور مکئی کی فصل کی تیاری کی جا رہی ہے وہ بھی سبز ہے۔ ٹڈی دل کوئی بھی فصل دیکھ کر حملہ نہیں کرتی یہ تو سبز رنگ پر حملہ آور ہوتی ہے۔
کسانوں کی پریشانی
وہاڑی کے زمیندار دیوان انیس الرحمٰن کہتے ہیں کہ ٹڈی دل کے حملے کے باعث دودھ دینے والے جانوروں کی خوراک بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
دیوان انیس کے مطابق ٹڈی دل گائے بھینسوں کے چارے پر بھی حملہ کر رہی ہے۔ جس سے چارہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اُن کو خوراک کم دی جا رہی ہے۔
ان کے بقول کم چارے کے باعث گائے بھینسوں کا دودھ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
دیوان انیس کہتے ہیں کہ ٹڈی دل کے حملے سے اُن کی سارے سال کی محنت ضائع ہو گئی ہے لیکن حکومت اِس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس نے اپنی نسل ایسے ہی بڑھائی تو صوبہ پنجاب میں گندم، سرسوں، سبزیوں اور پھلوں کی فصل شدید متاثر ہو گی۔ پھلوں اور خوراک کی پیداوار کم ہو گی۔ کسان کو اجناس کی صحیح ادائیگی نہیں ہو گی۔
حکومتی موقف
محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق ٹڈی دل 30 سال بعد دوبارہ متحرک ہوئی ہے جس سے پاکستان ہی نہیں دوسرے بہت سے ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں۔
ترجمان حکومت پنجاب مسرت جمشید چیمہ کہتی ہیں کہ ٹڈی دل کے حملوں سے بچاؤ کے لیے حکومت پنجاب بھرپور کارروائیاں کر رہی ہے۔
ان کے بقول وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر متعلقہ اضلاع میں 50 ہزار ایکٹر سے زائد رقبہ کلیئر کرا لیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ حکومت صوبے بھر میں ٹڈی دل کے حملوں کے تدارک کے لیے مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ سپرے کے لیے متاثرہ اضلاع میں مزید وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہاولپور، بہاول نگر اور رحیم یارخان ڈویژن میں 42 ہزار 360 ایکٹر علاقے پر ٹڈی دل سے بچاو کا اسپرے مکمل کر لیا گیا ہے جب کہ متاثرہ ڈویژن کے 800 ایکٹر علاقے میں فضائی اسپرے کیا گیا ہے۔ نو اضلاع میں 42668 لیٹر اسپرے کیا جا چکا ہے۔
ان کے مطابق آپریشنز ایریا میں مختلف محکموں کی 67 ٹیمیں دن رات متحرک ہیں۔ پاک فضائیہ اور چینی حکومت کے اشتراک سے بذریعہ ہوائی جہاز بھی اسپرے کیے جا رہے ہیں۔
ٹڈِی دَل کے لیے موزوں موسم
ادھر ٹڈی دل کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ٹڈیوں کی دوسری نسل بھی تیار ہے۔ ابھی دوسری نسل کی ٹڈیاں پنک یا گلابی رنگ کی ہیں جنہیں زرد ہونے میں چند ہفتے لگیں گے۔
جنوری اور فروری کے مہینے اور بارشیں ان ٹڈیوں کی افزائش کے لیے سازگار ماحول بنا دیں گی۔جنوبی پنجاب میں پہلے ہی کم عمر گلابی ٹڈیاں حملہ آور ہیں۔
ماہرین زراعت کی رائے
پاکستان میں زراعت کے شعبے میں تحقیق کے لیے بنائی جانے والی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے اینڈومالوجی ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر منصور الحسن کہتے ہیں کہ ٹڈی دل کا کم و بیش 40 برس میں ایک کیڑا بنتا ہے اور اِس کی افزائش افریقی ممالک سے شروع ہوتی ہے۔ جون اور جولائی میں اِس کا پہلا جرثومہ بننا شروع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر منصور الحسن کی تحقیق کے مطابق ٹڈی دل جب پاکستان اور بھارت میں پہنچتے ہیں تو انڈے دینا شروع کر دیتے ہیں جب کہ راستے میں بھی انڈے دیتے ہوئے آتے ہیں۔ زیادہ تر ٹڈیاں ریتلی زمینوں پر انڈے دیتی ہیں۔ جہاں سے بچے نکلتے ہیں اور ٹڈی دل کی ایک قسم بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر منصور الحسن بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں رواں سیزن جو ٹڈیاں حملہ آور ہوئی ہیں اور بڑی عمر کی نہیں ہیں اگر یہ بڑی عمر کی ہوگئیں تو یہ انڈے دینا شروع کر دیں گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جس طرح یہ ٹڈیاں آتی ہیں اُسی طرح واپس جاتی ہیں لیکن برسات کا موسم طویل ہونے کے باعث ٹڈی دل کی افزائش کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔
ٹڈی دَل سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر منصورا لحسن کے مطابق یہ ٹڈیاں جہاں رات کو بیٹھتی ہیں وہاں اگر اسپرے کر دیا جائے تو اِس کے آئندہ حملے سے بچا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول ٹڈیوں سے کنٹیکٹ ایکشن دوائیوں کے اسپرے کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔ جس میں سائیلوتھرین، ڈیلٹا میتھیرین، سائیپر میتھرین، میپرونل اور سیپرونل شامل ہیں۔
ڈاکٹر منصورالحسن تجویز کرتے ہیں کہ دن دس بجے کے بعد یا رات کو اگر بڑے پیمانے پر کم و بیش پانچ سات میل پر اسپرے کر دیا جائے تو ٹڈی دل سے بچا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل رات کے پچھلے پہر چار بجے بیٹھنا شروع ہو جاتا ہے جو پانچ سے چھ بجے تک مکمل طور پر بیٹھ جاتا ہے اور صبح سورج کی کرنوں سے پیدا ہونے والی گرمی سے یہ ٹِڈیاں اُڑتی ہیں۔ یہ ٹڈی دل زیادہ تر بیٹھنے کے لیے بیرل زمین، ریگستانی سطح اور قبرستانوں کی جگہ کو پسند کرتی ہے۔ درختوں پر یہ ٹِڈیاں بہت زیادہ بیٹھتی ہے جب کہ زمین پر کم بیٹھتی ہے۔
صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کے مختلف دیہات میں ٹڈی دل نے رواں سیزن میں تیسرا حملہ کیا ہے۔ جس کے باعث سیکڑوں ایکڑ اراضی پر تیار گندم اور سرسوں کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
مقامی کسانوں کے مطابق وقت پر اطلاع دینے کے باوجود محکمہ زراعت کا کوئی افسر موقع پر نہیں پہنچا۔ پنجاب میں ٹڈی دل کے حملے سے قبل صوبہ سندھ کے علاقے دادو، مٹیاری اور خیرپور میں ٹڈیوں کے حملے سے ہزاروں ایکٹر رقبے پر کاشت کی گئی کپاس کی فصل کو نقصان پہنچ چکا ہے۔
اس سے قبل 1955 اور 1993 میں بھی ٹڈی دل نے سندھ اور پنجاب کے کئی شہروں میں کپاس کی تیار فصلوں کو تباہ کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کی وارننگ
اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت سے متعلقہ تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے گزشتہ سال ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان میں ٹڈی دل کی صورت حال کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے وارننگ دی تھی۔
ایف اے او کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ٹڈی دل کی مزید افزائش اور پھیلاؤ کا خطرہ موجود ہے۔
ریسرچ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں ٹڈی دل کے سب سے زیادہ حملے قازقستان میں دیکھے گئے ہیں۔ جہاں کی حکومت ٹڈی دل سے بچاؤ کے لیے ہر سال ایک کروڑ ڈالر سے زائد رقم خرچ کرتی ہے۔
ایف اے او کے مطابق رواں سیزن میں ایتھوپیا، کینیا، صومالیہ، یوگینڈا، سوڈان، مصر، یمن، اریٹیریا، عمان، سعودی عرب، ایران، بھارت اور پاکستان ٹڈی دل سے متاثر ممالک ہیں۔
ایف اے او ریسرچ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا میں ٹڈی دل کے سب سے زیادہ حملے قازقستان میں سامنے آئے ہیں۔