پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں نوجوان بیورو کریٹ کی مبینہ خودکشی کا معاملہ سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض حلقے اسے اعلٰی سرکاری عہدوں پر فائز افسران میں ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔
پنجاب کے ضلع خانیوال کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے بلال پاشا نے 2018 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا اور وہ ان دنوں بنوں کنٹونمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) تعینات تھے۔
بلال پاشا کے سر میں گولی لگی لاش بنوں میں ان کے دفتر سے برآمد ہوئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ خودکشی کا واقعہ لگتا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان کا تبادلہ راولپنڈی میں ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ اپنے ذہنی دباؤ کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کسی اعلٰی عہدے پر فائز سرکاری افسر نے مبینہ طور پر موت کو گلے لگایا ہو، اس سے قبل بھی اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں کرپشن اور رشوت ستانی کی شکایات عام ہیں، ایسے میں ایمان دار اور فرض شناس افسران پر بڑھتا ہوا دباؤ بھی ایسے واقعات کی ایک وجہ ہے۔
اس سے قبل جن سات افسران نے مبینہ طور پرخودکشی کی ان میں ایک خاتون افسر بھی شامل ہیں۔ جن گروپس کے افسران نے خودکشی کی ان میں دو افسران پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز، تین پولیس گروپ، دو افسران آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس اور ایک ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔
سرکاری افسران میں خودکشی کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟
کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کہتے ہیں کہ سول سروسز میں دماغی صحت پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی سرکاری افسر کے بارے میں پتا چلے کہ وہ ڈپریشن کی دوائیں لے رہا ہے تو بجائے اس کے کہ اس کی مدد کی جائے اسے کوئی بڑا سرکاری عہدہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سول سروسز کے ٹریننگ پروگرامز میں بھی دباؤ برداشت کرنے یا ڈپریشن سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔
حمزہ شفقات کا کہنا تھا کہ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ صرف سول سروس سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اس دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔
حمزہ شفقات کے بقول سرکاری افسران پر میڈیا کی بھی نظریں ہوتی ہیں، اُن پر احتساب کی تلوار بھی لٹک رہی ہوتی ہے۔ افسران کا الگ دباؤ ہوتا ہے جب کہ سیاست دانوں کی جانب سے بھی سفارشیں الگ ہوتی ہیں۔
اُن کے بقول اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے یا اپنے دل کی کیفیت کسی سے بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا اور وہ خود ہی یہ سارا دباؤ برداشت کرتے ہیں اور جب یہ دباؤ حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
'ڈپریشن کو بھی بیماری ہی سمجھنا چاہیے'
ماہرِ نفیسات ڈاکٹر حفیظ اقبال کہتے ہیں کہ ڈپریشن سماجی وجوہات کی بنا پر ہی ہوتا ہے، لیکن بہرحال یہ ایک طبی مسئلہ ہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی وجہ سے ہی انسان خودکشی جیسا انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ لائف اسٹائل، کام کا دباؤ، ورزش نہ کرنا یہ وہ اسباب ہیں جو ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں۔ بیورو کریسی میں شامل لوگ بھی عام انسان ہی ہوتے ہیں، لہذٰا اُنہیں بھی علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔
حمزہ شفقات کہتے ہیں کہ بیورو کریسی میں ذہنی صحت کے حوالے سے طریقۂ کار وضع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد سرکاری افسران کی ذہنی صحت کا بھی تفصیلی معائنہ ہونا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سرکاری افسران کی تعطیلات، کام کے اوقات کا تعین بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی افسر مسلسل کام کر رہا ہے تو اس سے لامحالہ نہ تو وہ اپنے اہلِ خانہ کو وقت دے پاتا ہے اور نہ ہی وہ د ل جمعی کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ اقبال کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر سوشل سٹگما پایا جاتا ہے جہاں ایسے پڑھے لکھے اور معاشرے میں اچھا مقام رکھنے والے لوگ کسی نفسیاتی ماہر سے ملنے سے کتراتے ہیں۔
ماضی قریب میں خودکشی کرنے والے افسران
مارچ 2011 میں پولیس سروس گروپ سے تعلق رکھنے والے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ننکانہ صاحب شہزاد وحید نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر مبینہ طور پر خود کو سرکاری پستول سے گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔
پولیس کے اعلیٰ افسران کسی سرکاری معاملے پر بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن کوشش کے باوجود موبائل پر رابطہ نہ ہونے پر پولیس کے دیگر افسران کو ڈی پی او تک پہنچنے کا کہا گیا اور دروازہ توڑ کر اندر جانے پر ان کی لاش برآمد ہوئی۔ پولیس کے مطابق مبینہ طور پر ان کی اہلیہ کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے وہ دباؤ میں تھے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل ٹیپو نے مارچ 2018 میں مبینہ طور پر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈپریشن کے مریض تھے اور ڈاکٹروں نے اُنہیں مختلف دوائیں تجویز کر رکھی تھیں۔
سن 2014 میں لاہور میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کی زیرِتربیت افسر نبیہہ چوہدری نے مبینہ طور پر خود پر پیٹرول چھڑک کر ہاسٹل کے کمرے میں خود کو آگ لگا لی تھی۔ نبیہہ کے کمرے سے پیٹرول کی بوتل برآمد ہوئی جو ہاسٹل کے چپڑاسی سے منگوائی گئی تھی۔ نبیہہ چوہدری کی ڈائریوں کے مطابق وہ ڈپریشن میں تھیں۔
سولہ مئی 2016 کو پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے ایس ایس پی جعفرآباد جہانزیب خان کاکڑ اپنے دفتر میں خون میں لت پت مردہ حالت میں پائے گئے، جہانزیب خان کاکڑ نے مبینہ طور پر خود کو سر میں گولی مار کرخودکشی کی۔ بعد میں حکومتی تحقیقات میں جہانزیب کاکڑ کی موت خودکشی بتائی گئی تھی۔
راولپنڈی میں دسمبر 2020 میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ کے گریڈ 22 کے سینئر افسر خرم ہمایوں نے بھی مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔ وہ بطور کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کام کر رہے تھے۔
پولیس کو ان کی لاش کے قریب سے ایک نائن ایم ایم پستول ملا تھا جس سے گولی چلائی گئی تھی۔ پولیس کے مطابق خرم ہمایوں نے ڈپریشن اور سٹریس کی وجہ سے خودکشی کی تھی۔
راولپنڈی میں پولیس ٹریننگ اسکول روات کے پرنسپل اور پولیس ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ نے جنوری 2020 میں مبینہ طور پر اپنے سرکاری پستول سے خود کو گولی مار کو موت کو گلے لیا تھا۔
ابرار نیکوکارہ اپنے دفتر میں ہی تھے کہ فائر کی آواز سننے پر ملازمین کمرے میں پہنچے تو اس وقت تک ابرار زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔ ان کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈپریشن اور سٹریس کے مرض میں مبتلا تھے۔
لاہور میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو عمران رضا عباسی نے جون 2022 میں مبینہ طور پر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔ عمران رضا کا صرف ایک روز قبل اسلام آباد سے لاہور تبادلہ ہوا تھا۔ ان کی لاش ان کے ملازم نے دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی جس نے تفتیش کے بعد خودکشی ہونے کی تصدیق کی۔ ان کی موت کی کیا وجہ تھی اس بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔
فورم