ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) سے منسلک انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن (آئی ایچ آر) کی کمیٹی نے پاکستان سے پولیو وائرس دوسرے ممالک، خاص طور پر افغانستان اور ایران منتقلی کے پیش نظر اسلام آباد پر سفری پابندیوں میں مزید تین ماہ تک اضافے کی تجویز دی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہیڈ کوارٹرز میں آئی ایچ آر کے تحت وسط ستمبر میں منعقدہ 22ویں ایمرجنسی کمیٹی میٹنگ کے بعد پیش کردہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے مسافروں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے کے حوالے سے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر نرمی دیکھی جا رہی ہے۔
آئی ایچ ار نے ملک میں پولیو کے بڑھتے کیسز پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے جب کہ دنیا بھر میں پولیو کے رپورٹ شدہ کیسز میں اضافے کی وجہ پاکستان میں سامنے آنے والے کیسز کو قرار دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں پولیو کا پھیلاو بدستور جاری ہے جس کے شواہد اے ایف پی (اکیوٹ فلیسڈ پریلیسز) اور ماحولیاتی نمونوں سے ظاہر ہیں۔
کمیٹی نے اپنے مشاہدات میں خیبر پختونخوا کی صورت حال پر زیادہ تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ مختلف طبقات اور افراد کی جانب سے بچوں کو انسداد پولیو ویکسین نہ دینے کو پولیو مہم کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔
پاکستان میں انسداد پولیو مہم کی موجودہ انتظامیہ کی صورت حال پر بھی کمیٹی نے تحفظات ظاہر کیے ہیں البتہ یہ بھی کہا ہے کہ پولیو پروگرام کو واپس ٹریک پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کمیٹی کے مطابق پولیو کا پھیلاو اب بھی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرن (پی ایچ آئی ای سی) ہے یعنی بین الاقوامی طور پر اس وائرس کا پھیلاو آج بھی ایک خطرہ ہے۔
ریمارکس میں مزید بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں پولیو کے خلاف حاصل شدہ کامیابی واپس جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
آئی ایچ آر کی کمیٹی نے دوسرے ممالک پولیو وائرس منتقلی پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے افغانستان پولیو وائرس کی منتقلی کے چند نئے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل پولیو وائرس کی ایران منتقلی کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے البتہ ایران میں اس پر بروقت قابو پا لیا گیا۔
سفارشات و مشاہدات میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی ابتر صورت حال کی وجہ سے بچوں تک انسداد پولیو ادویات کی رسائی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
کمیٹی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہائی رسک موبائل پاپولیشن یعنی پولیو وائرس کی زد میں آنے والے مسافروں تک ادویات کی رسائی پر زور دیا ہے جب کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے، اہم سرحدی گزرگاہوں پر تمام عمر کے افراد کو انسداد پولیو ویکسین دینے کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ پچھلے پانچ سال سے ہوائی اڈوں پر مسافرو ں کو پولیو ادویات دی جا رہی ہیں لیکن اس سلسلے میں کچھ نرمی دیکھنے میں آئی ہے جس کا فوری تدارک ضروری ہے تا کہ وائرس کی بین الاقوامی سطح پر منتقلی کی روک تھام یقینی ہو۔
کمیٹی کے مطابق پاکستان اور افغانستان کو ہوائی اڈوں پر پولیو ویکسین کی مسافروں کو فراہمی اور اس عمل کی نگرانی کرنے کے نظام پر توجہ کی ضرورت ہے جبکہ اس کام کے لیے الگ فنڈز مختص کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مسافروں کو انسداد پولیو ویکسین کی فراہمی بظاہر اتنا اہم نہیں لگتا لیکن اس سے پولیو وائرس کی دوسرے ممالک منتقلی میں معاونت ہو گی۔
کمیٹی کے مطابق پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام میں بہتری پر کام ہو رہا ہے۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
کمیٹی نے مشورہ دیا ہے کہ مسافروں کے لیے انسداد پولیو ویکسین کی ہوائی اڈوں پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے جب کہ ایسے مسافر جو یہ ویکسین لے چکے ہوں انہیں انٹرنیشنل سرٹیفیکیٹ کا اجرا کیا جائے۔ اسی طرح ان افراد کو سفر پر جانے سے روک دیا جائے جن کے پاس انسداد پولیو دوا لینے کے ثبوت موجود نہ ہوں۔
ان پابندیوں کا اطلاق فضائی، بحری اور زمینی یعنی تمام سفر کے ذرائع پر لاگو کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنا لازمی ہے۔ ملک میں رواں سال رپورٹ شدہ پولیو کیسز کی تعداد 72 ہو چکی ہے جو کہ 2014 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔