رسائی کے لنکس

کشمیر پر بھارت کی پالیسیوں نے نئی دہلی سے بات چیت کو مشکل بنا دیا ہے: بلاول بھٹو


پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری واشنگٹن میں تھنک ٹینک ووڈرو ولسن میں گفتگو کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری واشنگٹن میں تھنک ٹینک ووڈرو ولسن میں گفتگو کر رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات مثبت انداز سے ترقی اور تعاون کے باہمی امکانات کی بنیادوں پر آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ تعلقات افغانستان، بھارت یا سکیورٹی معاملات کے مرہون منت نہیں ہیں۔ وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے امریکہ کی طرف سے کوئی دباو نہیں ہے۔ ان کے بقول خودبھارت کی پالیسیوں نے نئی دہلی کے ساتھ بات چیت کو مشکل بنا دیا ہے

واشنگٹن میں ووڈرو ولسن تھنک ٹینک کی میزبانی میں منعقدہ ایک پروگرام میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ماضی کے برعکس اب پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو کسی تیسرے ملک کے زاویے یا حوالے سے نہیں دیکھا جاتا۔

وزیر خارجہ جنہوں نے اپنے امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن سے پیر کو وزارت خارجہ میں ملاقات کی تھی، زور دیا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے موجودہ تعلقات کی نوعیت ماضی سے یکسر مختلف ہے۔ نہ تویہ افغانستان کے حوالے سے تعلقات ہیں اور نہ ہی بھارت کے حوالے سے اور نہ ہی یہ سیکیورٹی کے معاملات تک محدود ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا کہ امریکی وزیر خارجہ نے انہیں بھارت کے ساتھ ذمہ دارانہ انداز میں تعلقات کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر لیکچر دیا یا ان کی اسکولنگ کی۔

"سیکرٹری بلنکن کے ساتھ میری بات چیت نہایت خوشگوار رہی۔ کسی بھی دوطرفہ تعلق میں باہمی احترام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اور جو لوگ بھی سیکرٹری بلنکن کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ اس لب و لہجے میں بات نہیں کرتے۔"

ایک اور سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لئےایف سولہ طیاروں کی مرمت کے منصوبے پر بھارتی اعتراضات کو بھی مستردکردیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے تھنک ٹینک کے زیراہتمام گفتگو میں موجود ماہرین اور صحافیوں کو بتایا کہ ماضی میں سکیوریٹی پر مرکوز بات چیت کے مقابلے میں اب پاکستان اور امریکہ کے مذاکرات میں دو طرفہ تجارت ، صحت اور زراعت جیسے شعبوں میں تعاون پر بات ہوتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ذمہ دارانہ تعلقات بڑھانا چاہے گا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں سن 2010 میں اعتراضات اور تنقید کے باووجود یکطرفہ طور پر بھارت سے تجارت کرنے کے فیصلے کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کے باعث حکومت کو سیاسی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

تاہم انہوں نےکہا کہ اس وقت کے ماحول کے مقابلے میں آج کے حالات میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور بھارت ا یک مختلف ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نہ تو سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ ہیں اور نہ ہی اٹل بہاری واجپائی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے گجرات میں قتل عام کے باعث نریندر مودی امریکہ نہیں آسکتےتھے۔

پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں، مارون وائن بام
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:23 0:00

بلاول زرداری نے کہا کہ امید تھی کہ بطور وزیر اعظم مودی کے دور میں حالات مختلف ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ مودی کے دور میں بھارت کی سیکیولرزم سے دور ہونے کی پالیسوں کے کئی اثرات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے حوالے سے کہا کہ ان کے دورمیں نئی دہلی نے یکطرفہ طور پر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کا اسٹیٹس تبدیل کیا۔

اس پالیسی نے، ان کے بقول، بھات کے ساتھ بات چیت کو بہت مشکل بنادیا ہے کیونکہ انہوں نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کے زیر کنٹرول واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے لیکن سن 2019 سے اس کی اس حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاری ہے اور کشمیریوں کو اپنی سرزمین پر ہی ایک اقلیت بنایا جارہا ہے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ ان پالیسیوں نے ہمارے لیے ان سے بات کرنا مشکل بنادیا ہے ۔پاکستان اور خصوصی طور پر نئی نسل خطے میں ایسے تعلقات چاہتی ہے جو ماضی کےسیاسی بوجھ تلے نہ دبے ہوں۔

"لیکن ذمہ دارانہ تعلقات کو استوار کرنے کے لیے ذمہ دار پڑوسی کی ضروت ہے، اور فی ا لوقت ایسا نہیں ہے "۔

یاد رہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ اس کے زیر انتظام کشمیر کے حصے میں شورش پسندی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے ۔

وزیر اعظم مودی نے سن 2019 میں کشمیر کی آئین کے تحت متعین کی گئی آزاد انہ حیثیت کو ختم کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کشمیر کو بھارت کے قومی ترقی کے دھار ے میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سرمایہ کاری ہو سکے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔

افغانستان کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان طالبان کی عبوری حکومت سے بات چیت کی پالیسی پر یقیین رکھتا ہے کیونکہ بات چیت کے بغیر انسانی اور خواتین کے حقوق سمیت کسی بھی معاملے پر پیش رفت کرنا مشکل ہوگا۔

XS
SM
MD
LG