وزیر اعظم محمد شہباز شریف 19 سے 23 ستمبر تک نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں شرکت کریں گے۔ وزیراعظم 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کلیدی خطاب کریں گے۔
پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلابوں کے تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف پاکستان کو درپیش چیلنج کو عالمی فورم پر اجاگر کرکے ماحولیاتی تبدیلی سے وابستہ خطرے سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے لیے ٹھوس تجاویز کا خاکہ پیش کریں گے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق شہباز شریف مسئلہ کشمیر سمیت علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے موقف اور نقطہ نظر سے عالمی رہنماؤں کو آگاہ کریں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم افریقی یونین، یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے مشترکہ طور پر منعقد ہونے والے تحفظ خوراک اور COP-27 عالمی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ یہ دونوں اجلاس عالمی برادری کو درپیش دو سب سے اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات پر غور و خوض کے لیے اہم پلیٹ فارم ہیں۔
وزیراعظم اپنے دورے میں مختلف ملکوں کے وزرائے اعظم ، جنرل اسمبلی کے صدر، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں، عالمی مالیاتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کے سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔
اس موقع پراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکی صدر کی جانب سے دیے جانے والے استقبالیہ کے دوران عالمی رہنماؤں کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں اور وہ مختلف تقریبات میں شرکت کے علاوہ دیگر ممالک کے وزراء خارجہ سے ملاقاتیں کریں گے۔
بلاول بھٹو میڈیا اور تھنک ٹینک کے ساتھ بات چیت کے علاوہ G-77 اور چین کےوزراء خارجہ اور او آئی سی کے سالانہ اجلاسوں اور جموں و کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کے رہنما شرکت کر رہےہیں۔اس سال جن بڑے مسائل پر بات ہو گی ان میں دنیا کو درپیش معاشی بحران، ماحولیاتی مسائل اور یوکرین کی جنگ سر فہرست ہیں۔یو این جی اے کے اجلاس میں ہر سال بڑے اور اہم عالمی مسائل پر بات کی جاتی ہے۔
گزشتہ دو سال میں توجہ کا مرکز کووڈ کی عالمی وبا رہی ، لیکن اس بار ماحولیاتی بحران کی وجہ سے پاکستان میں آنے والےتباہ کن سیلاب بھی دنیا کی نظر میں ہیں۔
آج سے شروع ہونے والے سیشن میں عالمی رہنماؤں کی تقاریر اتوار تک جاری رہیں گی جس میں 157 ملکوں کے سربراہ اور حکومتوں کے نمائندے اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے رکھیں گے۔
اس سال عالمی رہنماؤں کے اس سب سے بڑے سالانہ اجتماع میں چین، روس اور بھارت کے سربراہ شر کت نہیں کر رہے۔