پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لئے 26 جون کو ہونے والے انتخابات پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حلیف اور سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے ان انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔
متحدہ کے اس اقدام سے ایک جانب حکمراں جماعت کی انتخابات میں عددی برتری کا مزہ پھیکا ہوگیا ہے تو دوسری جانب اس اقدام سے پاکستان مسلم لیگ نواز لیگ جو اانتخابات میں شکست سے دوچار ہوتی نظر آرہی تھی، اس کے ہاتھ مضبوط ہوگئے ہیں۔ تیسری جانب اس اقدام نے سیاست میں مفاہمت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
سیاسی ماہرین اور مبصرین اگلے چند دنوں میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے موقع کوغنیمت جانتے ہوئے فوری طور پر وسط مدتی انتخابات کے مطالبے کی توقع کررہے ہیں۔ یوں بھی نواز شریف 26فروری 2011کو یہ بیان دے چکے ہیں کہ ضروری ہوا توان کی جماعت حکومت کو وسط مدتی انتخابات پر مجبور کرے گی۔
متحدہ کی حکومت سے علیحدگی کی وجہ انتخابات سے قبل ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے متحدہ کو کراچی کی 2 نشستوں میں سے ایک سے دستبرداری کے مطالبے کو قرارد یا جارہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کے مطابق متحدہ کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ جب تک متحدہ 1نشست سے علیحدہ نہیں ہوگی، اس وقت تک الیکشن ملتوی رہیں گے ۔لہذا پیر کو کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کراچی میں ملتوی ہونے پرمتحدہ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کردیا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی گورنر سندھ ڈاکٹر عشر ت العباد خان بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں ۔ ان کا استعفیٰ وفاق کو پہنچ چکا ہے تاہم ابھی منظور یانامنظور ہونا باقی ہے۔ وہ پیر کی رات اچانک نجی دورے پر لندن بھی روانہ ہوگئے جہاں وہ موجودہ سیاسی صورتحال پر اہم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے تبادلہ خیال کریں گے۔
مبصرین کے مطابق ایک جانب تومتحدہ اپوزیشن میں چلی گئی تو دوسری جانب فرینڈلی اپوزیشن حقیقی اپوزیشن بن گئی ہے ۔ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال میں اپوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی جس سے حکومت کو آنے والے وقتوں میں شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑے گا ۔
سال دو ہزار آٹھ میں ہونے والے انتخابات کے بعد آمریت سے تنگ جمہوریت پسند جماعتوں میں جو اتحاد اور رویہ دیکھنے میں آیا وہ ملکی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا اور مبصرین اسے پاکستانی سیاست میں انتہائی مثبت تصور کر رہے تھے ، موجودہ حکومت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں ہی حکومت کا حصہ رہ چکی ہیں اور یہ سب صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا نتیجہ قرار دی جاتی رہی ہے ۔
ناقدین ہمیشہ سے صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی پر یہ کہہ کر تنقید کرتے رہے ہیں کہ اس عمل میں عوام سے زیادہ فائدہ سیاسی جماعتوں کو ہو گا کیونکہ جب سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں گی تو عوام کی نمائندہ اپوزیشن کون ہوگا ۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے مفاہمتی عمل کی رسی کو اس مضبوطی سے پکڑا کہ ایک دو بار اسے ہاتھ سے چھوڑنا بھی چاہا مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔ متعدد بارپیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شدید اختلافات دیکھنے میں آئے مگر وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ایسے کردار ثابت ہوئے جنہوں نے صدر آصف علی زرداری اور الطاف حسین کو ہمیشہ مفاہمتی پالیسی کے ثمرات یاد دلائے اور یوں دونوں کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل شروع ہونے والی مہم میں ایک جانب توپاکستان میں حلیف پیپلزپارٹی اور متحدہ آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں تو دوسری جانب مسلم لیگ ن نے صدر آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی پر ایسی تنقید کی کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صدر آصف علی زرداری نے جو مفاہمتی عمل شروع کیا تھا ان ہی کی 58 ویں سالگرہ پر 21 جون کو صدر آصف علی زرداری نے نواز شریف کو ایسا جواب دیا کہ مفاہمتی پالیسی لرز اٹھی۔
رہی سہی کسرمتحدہ کی علیحدگی نے پوری کردی۔ اس کی وجہ بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات ہی بنے۔ ایم کیو ایم کی ناراضگی کی وجہ یہ بنی کہ پیپلزپارٹی نے اس پر دباؤ ڈالا کہ کشمیر کی کراچی کی دو نشستوں میں سے ایک سے دستبردار ہو جائے بصورت دیگر یہ انتخابات ملتوی کر دیئے جائیں گے اور جب یہ بات نہیں مانی گئی تو پیپلزپارٹی نے اس دھمکی پر عملدرآمد کر دیا ۔