رسائی کے لنکس

ماہی گیر کی مبینہ ہلاکت، پاکستان نیوی کے 10 اہل کاروں کے خلاف بھارت میں مقدمہ درج


پاکستان کے حکام نے ملکی سمندری حدود کے تحفظ پر مامور اپنی میری ٹائم سیکیورٹی کے ہاتھوں مبینہ طور پر بھارتی ماہی گیر کی ہلاکت کی خبروں کی تردید کی ہے۔

خیال رہے کہ بعض بھارتی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دی تھی کہ پانچ نومبر کو پاکستان کی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کی مبینہ فائرنگ سے ایک بھارتی ماہی گیر ہلاک ہو گیا تھا۔

ترجمان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے مطابق ایجنسی ایسے واقعے سے لاعلم ہے جہاں کسی فائرنگ سے کوئی شخص ہلاک یا زخمی ہوا ہو۔

ترجمان کے مطابق پانچ نومبر کو شام چار بجے جب میری ٹائم ایجنسی کا ایک جہاز مشرقی میری ٹائم ریجن میں معمول کے گشت پر تھا تو اس نے سمندری حدود کی خلاف ورزی پر چند بھارتی ماہی گیروں کی کشتیوں کی نگرانی کی اور انہیں بھارتی پانیوں کی جانب جانے کی ہدایت کی۔ البتہ بعض بھارتی ماہی گیروں نے ہدایت پر عمل نہیں کیا جس پر پدمنی کوپا نامی کشتی کو پکڑا گیا اور اسے مزید قانونی کارروائی کے لیے چھ نومبر کو کراچی کی ڈاکس پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

ان ماہی گیروں پر پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق کشتی کے عملے کے نام بھوپت بابو، سنجے شیدوا، کشور مشیا، نیریندر بوجاد، اجے ووڈو، سنتوش اور رامو بوجاد ہیں۔

پاکستان نیوی کے اہلکاروں کے خلاف بھارت میں مقدمہ درج

دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ کی خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاست گجرات کے قریب بین الاقوامی میری ٹائم سرحد کے قریب پاکستانی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کی فائرنگ سے ایک 32 سالہ بھارتی ماہی گیر سری دھار رمیشن چامڑی ہلاک جب کہ سات معمولی زخمی ہوئے ہیں۔ جن کا قریبی اسپتال میں علاج کیا گیا ہے۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ دیو بھومی دوارکا کے سپریڈینٹ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق مہارشٹرا سے تھا۔ جو "جل پری" نامی کشتی میں دیگر ماہی گیروں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھا۔

ریاست گجرات کی پولیس نے واقعے پر پور بندر نوی تھانے میں پاکستان نیوی کے دس اہلکاروں کے خلاف واقعے کی ایف آئی آر زخمی ماہی گیر کی مدعیت میں درج کر لی ہے۔ انڈین کوسٹ گارڈ نے بھی واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی تحقیقات جاری ہیں۔

ادھر پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پکڑی گئی کشتی کی سرکاری دستاویزات میں ایسا کوئی نام نہیں دکھایا گیا جیسا کہ کچھ غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے۔

پی ایم ایس اے کو کشتی جل پری یا اس کے عملے کی تعداد کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ جب کہ معیاری آپریٹنگ طریقۂ کار کے مطابق پی ایم ایس اے قانون نافذ کرنے والے اقدامات کرتے وقت غیر مہلک ذرائع استعمال کرتا ہے۔

میری ٹائم ایجنسی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ماہی گیروں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کو ہمیشہ مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ پی ایم ایس اے چاہے گا کہ ہر ملک کی میری ٹائم فورسز کی طرح ماہی گیروں کی طرف سے دوسرے ملک کے خصوصی اقتصادی زون میں غیر قانونی مداخلت کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

دونوں ممالک سمندری حدود کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو گرفتار کرتے رہتے ہیں۔
دونوں ممالک سمندری حدود کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو گرفتار کرتے رہتے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان سمندری حدود کا تنازع ماہی گیروں کی گرفتاری کی وجہ

دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 96 کلو میٹر کی پٹی جسے سرکریک بھی کہا جاتا ہے کہ مسئلے پر سرحدی تنازع کے باعث ہر سال دونوں ممالک ایک دوسرے کے درجنوں ماہی گیروں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔

پاکستان میں ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کے ترجمان کے مطابق ایسے ماہی گیروں کی تعداد 500 کے قریب ہے جو بھارت اور پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

اُن کے بقول ان ماہی گیروں میں سے کچھ پچھلے 20 برسوں سے مختلف الزامات کے تحت بھارتی جیل میں قید ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اکثر ماہی گیروں کی گرفتاری کے بعد دونوں ممالک کے خراب تعلقات کی وجہ سے اپنے ملک کے قونصلر تک رسائی میں کافی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔

دونوں ممالک کے ماہی گیروں کا مطالبہ ہے کہ سر کریک کے علاقے میں دونوں ممالک کے میری ٹائم بارڈر پر 50 ناٹیکل میل کے علاقے کو فشنگ زون قرار دیا جائے جہاں دونوں ممالک کے ماہی گیروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے مچھلی پکڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات جو 2004 میں شروع ہوئے تھے اس میں کشمیر سمیت سرکریک تنازع اور دیگر حل طلب امور پر بھی بات چیت شروع ہوئی تھی۔ لیکن 2008 میں ممبئی حملوں اور پھر بعد میں پیش آنے والے واقعات کے بعد یہ مذاکرات ملتوی ہو گئے تھے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG