پاکستان میں بھارت کے ہائی کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جاسوسی کے الزام میں پاکستان میں گرفتار چار بھارتی شہریوں کو سزا مکمل ہونے کے کئی برس بعد بھی رہا نہیں کیا گیا۔
ہائی کمیشن کے مطابق ان قیدیوں کی رہائی کے لیے بھارت کے ہائی کمیشن کی طرف سے 32 مرتبہ خطوط تحریر کیے گئے لیکن انہیں رہائی نہ مل سکی۔ ان چاروں بھارتی شہریوں کو پاکستان کی فوجی عدالتوں نے سزائیں سنائی تھیں۔ البتہ یہ سب اپنی سزا مکمل کر چکے ہیں۔
دائر کردہ پٹیشن کے مطابق ایک بھارتی شہری برجو پر 2006 میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور 29 اپریل کو اس نے اپنی سزا مکمل کی تھی۔ اس کے بھارتی ہونے کی تصدیق کمیشن نے رواں سال کی لیکن اسے رہا نہیں کیا گیا۔ برجو سینٹرل جیل لاہور میں قید ہے۔ دوسرے شہری بنگ کمار کی سزا 19 جون 2014 میں مکمل ہوئی۔ تیسرے شہری ستیش بھاگ کی سزا 6 مئی 2015 جب کہ چوتھے قیدی سونو سنگھ 29 مارچ 2012 کو اپنی سزا مکمل کر چکے ہیں۔
بھارتی ہائی کمیشن اور قیدیوں نے بیرسٹر ملک شاہ نواز نون کے ذریعے درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ بھارتی قیدی برچو، بنگ کمار، ستیش بھگ اور سونو سنگھ کو رہا کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور جیل میں قید تین اور کراچی جیل میں موجود ایک بھارتی شہری کو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے الزامات پر سزا سنائی گئی تھی۔ جیل میں موجود بھارتی قیدی اپنی سزا پوری کر چکے ہیں۔ قانونی طور پر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ وہ جیل میں قید رہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ سزا پوری کرنے کے بعد قیدیوں کو جیل میں رکھنا آئین پاکستان کے تحت حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ قیدیوں کو رہا کر کے واپس بھارت بھیجنے کی ہدایت کی جائے۔
بھارت کے ہائی کمیشن کا درخواست میں کہنا ہے کہ پاکستان کا آئین کسی بھی شخص کو آزادانہ اور منصفانہ ٹرائل کا بنیادی حق دیتا ہے لیکن ان بھارتی شہریوں کو ان کے وکلا سے ملنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی وکیل حکومت کی طرف سے دیا گیا۔
ہائی کمیشن اور قیدیوں کی طرف سے دائر درخواست کے مطابق چاروں بھارتی شہری دراصل بھارتی ماہی گیر تھے جو غلطی سے پاکستان آئے تھے۔ تاہم انہیں طویل سزائیں دی گئیں اور سزائیں مکمل ہونے کے بعد انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن میں چاروں کے بھارتی ہونے سے متعلق خطوط کی فہرست بھی پیش کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کو اس حوالے سے 32 خطوط ارسال کیے گئے۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر سال قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ ہوتا ہے جن میں سے بیشتر سمندری ماہی گیر ہوتے ہیں۔ جو غلطی سے اپنی سمندری حدود پار کرکے دوسرے ملک کی حدود میں چلے جاتے ہیں اور اکثر گرفتار بھی کر لیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے گزشتہ برس 100 سے زائد ماہی گیر رہا کیے تھے۔ جب کہ رواں برس جنوری میں مزید 20 ماہی گیروں کو رہا کیا گیا تھا۔ بھارت نے بھی 150 کے قریب پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان غلطی سے سرحد عبور کرنے والوں کی واپسی کے لیے باقاعدہ میکنزم موجود ہے۔ لیکن جاسوسی کے خدشات کے پیشِ نظر گرفتار افراد کی رہائی میں طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔