وسطی پنجاب کے شہر گوجرانولہ کے قریب مضافاتی علاقے کے رہائشی تلونڈی موسیٰ خان سے تعلق رکھنے والے کاشت کار محمد شہباز کی عمر 80 برس کے لگ بھگ ہے۔ عمر کا بیشتر حصہ کاشت کاری میں گزارنے کے بعد اب اُن کے پاس زرعی زمین نہ ہونے کے برابر ہے۔
محمد شہباز بتاتے ہیں ان کا گاؤں دن بدن سکڑتا جا رہا ہے، زرعی زمینوں کے ساتھ ساتھ وہ گلیاں اور بازار بھی ختم ہو رہے ہیں جہاں ان کا بچپن اور جوانی گزری تھی۔
ان کے بقول "ہم سائیکل پر بیٹھ کر گاؤں سے 17 کلو میٹر دور شہر کی کچہری اور بازار جاتے تھے لیکن اب تو سب ختم ہو گیا ہے، ہم نے اپنی زندگی میں ہی فصلوں اور گاؤں کو ختم ہوتے دیکھ لیا ہے۔"
وسطی پنجاب کے زرخیز سرسبز علاقے جہاں کبھی لہلاتے کھیت تھے وہاں اب دور تک مکانات اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔
گوجرانولہ شہر کے قریب واقع گاؤں تلونڈی موسیٰ خان میں 15 برس پہلے ساڑھے تین ہزار ایکڑ رقبے پر گندم اور چاول کی کاشت کی جاتی تھی لیکن اب یہ زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔
شہر کے قریب ہونے کے سبب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے تلونڈی موسیٰ خان کی زرعی زمین کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اسے مہنگے داموں خریدنا شروع کر دیا ہے۔
مذکورہ گاؤں میں گزشتہ برس تک 1800 ایکڑ زرعی رقبے پر گندم کاشت ہوئی تھی لیکن رواں برس یہ مزید سکڑ کر 1600 ایکڑ رہ گئی ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کیوں کہ 200 ایکڑ زمین ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی نے خرید لی ہے۔
یہی صورتِ حال کم و بیش دیگر دیہات اور شہروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جی ٹی روڈ پر گوجرانولہ سے لاہور یا فیصل آباد سفر کریں تو دونوں اطراف آپ کو ہاؤسنگ سوسائٹیز اور فیکڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک شہر سے ہی آپ دوسرے شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی نے رہائشی مکانات کی طلب میں اضافہ کیا ہے وہیں ملک میں اجناس کی پیداوار بڑھنے کی بجائے ہر سال کم ہو رہی ہے۔ نتیجتاً خوراک میں خود کفیل ایک زرعی ملک اب گندم سمیت دیگر اجناس دوسرے ممالک سے خرید رہا ہے۔
امریکی محکمۂ زراعت (یو ایس ڈی اے) کی عالمی سطح پر زرعی انفارمیشن نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں متناسب شرح سے گندم کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا اور توقع ہے کہ رواں برس کٹائی کے وقت پاکستان میں گندم کی پیداوار پچیس اعشاریہ دو ملین ٹن سے بھی کم ہوگی۔
ملک میں مجموعی زرعی پیداوار میں کمی میں جہاں دیگر تکنیکی عوامل شامل ہیں وہیں زرعی شعبے میں زیادہ محنت اور کم منافع بخش ہونا بھی خاصا اہم ہے۔اسی وجہ سے زرعی زمینوں کے مالکان ہاؤسنگ اسکیم کے منصوبوں سے وابستہ سرمایہ کاروں کی پرکشش منافع بخش پیشکش کو مسترد نہیں کر پاتے۔
ایک اور کاشت کار عثمان رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا خاندان زراعت کے شعبے سے وابستہ تھا اور اُن کی زرعی زمین کی قیمت 30 سے 40 لاکھ روپے فی ایکڑ تھی۔ لیکن ایک پراپرٹی ڈیلر نے اسی زرعی زمین کی قیمت ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے فی ایکٹر لگائی۔ ایسے میں وہ زمین نہ بیچتے تو اور کیا کرتے۔
وسطی اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ٹاؤن پلاننگ کے فقدان کے باعث زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کے رجحان میں گزشتہ پانچ برسوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
وسطی پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤالدین، نارووال اور حافظ آباد کو گندم اور چاول کی کاشت کے حوالے 'گولڈن ایریاز' بھی کہا جاتا ہے، یہاں دیہی رقبہ زیادہ اور شہری آبادی کم تھی لیکن ہر سال دیہی رقبہ خصوصاً زیرِ کاشت رقبہ کم اور شہری آبادی زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 1998 میں صوبۂ پنجاب کی دیہی آبادی تقریباً 69 فی صد اور شہری آبادی 31 فی صد تھی تاہم 19 برسوں میں دیہی آبادی کی اوسط آبادی کم ہو کر 63 فی صد اور شہری آبادی کی اوسط بڑھ کر 37 فی صد تک ہو گئی ہے۔
دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے شہری حدود میں شامل ہونے کے باعث دیہی رقبہ کم اور شہری رقبے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گوجرانولہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت ضلع میں 55 منظور شدہ جب کہ 254 غیر قانونی رہائشی اسکیمیں کام کر رہی ہیں جب کہ 34 رہائشی اسکیموں کی منظوری زیرِ غور ہے۔ نئی کالونیوں کے لیے کتنی ایکڑ زرعی ختم ہوئی ہے؟ اس بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں۔
سنہ 2002 میں گوجرانوالہ ڈویژن میں 21 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر گندم اور چاول کی کاشت کی جاتی تھی۔ محکمۂ زراعت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق رواں برس گوجرانوالہ ڈویژن میں 15 لاکھ 55 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی ہے۔
سرکاری اہلکار نے بتایا کہ زرعی زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے باقاعدہ قوانین موجود ہیں اور زرعی زمین کو ختم کرنے کے لیے اجازت لینا پڑتی ہے اور سرکاری فیس جمع کرانا ہوتی ہے۔
ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ حافظ خرم شہزاد نے اس سلسلے میں بتایا کہ سال 2011 میں پنجاب حکومت نے صوبے کے بڑے شہروں کے لیے آئندہ 20 برسوں کی ضروریات اور شہری آبادی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے 'پیری اربن' منصوبے کی منظوری دی تھی۔ اس منصوبے میں شہری اور دیہی آبادی کو تقسیم کیا گیا تھا۔
بعد ازاں 2016 میں اس منصوبے میں ترمیم کی گئی اور کچھ اضلاع کے شہری رقبے کی حدود مزید بڑھائی گئی۔
ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ کا کہنا ہے کہ منصوبے کے مطابق 'پیری اربن' حدود میں آنے والی زمینوں پر رہائشی اسکیم بنائی جا سکتی ہے چاہے وہ زرعی زمین ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں زمین کی قیمت کا ایک فی صد کنورشن ٹیکس حکومت کو ادا کرنا پڑتا ہے اور زمین کی قیمت کا تعین مارکیٹ ریٹ کے بجائے ڈی سی ریٹ سے کیا جاتا ہے جو کہ مارکیٹ ریٹ سے کم ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے جو اسکیم متعارف کرائی گئی ہے، اس کے مطابق سرکاری ادارے کسی بھی نجی ہاؤسنگ اسکیم کی فائل کے جمع ہونے کے 75 روز کے اندر اندر اسے این او سی دینے کے پابند ہوں گے۔ اس اسکیم سے بھی ہاؤسنگ سیکٹر میں کام تیز ہوا ہے اور لوگوں نے بڑی تعداد میں اپنی فائلیں منظوری کے لیے جمع کروائی ہیں۔
پاکستان میں سنہ 2002 کے بعد مکانات کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے ہاؤسنگ سیکٹر حکومتوں کی ترجیح رہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی قوانین بھی بنائے گئے اور ٹیکسوں میں مراعات بھی دی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کے بیشتر اضلاع میں منظور شدہ کے ساتھ ساتھ غیر منظور شدہ سوسائٹیاں بھی کام کر رہی ہیں۔
ٹاؤن پلاننگ کے ماہر وحید احمد بٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آبادی بڑھنے پر دنیا میں نئے شہر بسائے جاتے ہیں جس میں غیر آباد اور کم زرخیز زمین کو زیرِ استعمال لایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زرعی زمینوں کو ختم کر کے سوسائٹیاں یا فیکٹریاں لگانے کا رجحان کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں نہیں۔ ان کے بقول ان ممالک میں جہاں نئی سوسائٹی بنائی جاتی ہے اس کے اردگرد کی زمین کو قابلِ کاشت بنایا جاتا ہے تاکہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اجناس کی طلب کو بھی پورا کیا جا سکے
وحید بٹ کہتے ہیں ایسے وقت میں جب خوراک کا حصول ایک عالمگیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے، زرعی زمین کو بھی وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر مزمل حسین کاہلوں پنجاب کے محکمۂ زراعت میں ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ فارم ٹریننگ ہیں۔ ڈاکٹر کاہلوں نے بتایا کہ زرعی زمینوں کی کمی کے باعث ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔
ان کے بقول چند برس پہلے تک پنجاب میں گندم کی کٹائی 15 اپریل سے شروع ہو جاتی تھی لیکن اب فصلیں یکم مئی تک تیار ہوتی ہیں، تب کہیں جا کر کٹائی شروع ہوتی ہے اور یہی حال گندم اور چاول کی بوائی کا ہے۔
ڈاکٹر کاہلوں کے مطابق فصل دورانیے میں دو سے تین ہفتوں کا فرق آگیا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
ڈاکٹر کاہلوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فی کس زرعی زمین کی شرح کم ہو رہی ہے۔ زراعت کم ہونے سے ماحولیات پر یقیناً پڑتا ہے اور اس اثر کو کم کسی حد تک کم کرنے کے لیے ان کا محکمہ تمام سوسائٹیوں کو شجر کاری کرنے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ایک بورڈ یا نگران کمیٹی تشکیل دینے کا پابند کرتا ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر زرعی پیداوار اور زیرِ کاشت رقبے میں کمی سے مستقبل میں غذائی عدم تحفظ کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ جسے ختم کرنے کے لیے بروقت اقدامات ضروری ہیں۔
تلونڈی موسیٰ خان کے معمر کاشت کار محمد شہباز ہر روز اپنے تیزی سے سکڑتے گاؤں کو دیکھ کر افسردہ ہیں اور خاموشی سے بیٹھ کر ان لمحوں کو یاد کرتے ہیں جب پنڈ (گاؤں) میں فصلیں لہلہاتی تھیں اور غلے کی فراوانی تھی۔