پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے تحریری فیصلے میں حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کو اپنے اپنے دائر کار میں رہتے ہوئے فرائض انجام دینے کی ہدایت کی ہے، جبکہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے نومبر 2017 میں مذہبی جماعت تحریکِ لبیک کے فیض آباد دھرنے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
تحریری فیصلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نفرت، انتہا پسندی، دہشت گردی پھیلانے والوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان کا آئین فوج کو سیاسی سرگرمیوں سے روکتا ہے اور فوج کسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کر سکتی ہے اور حساس ادارے حدود سے تجاویز نہ کریں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی افسران کے خلاف کاروائی کریں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ حساس اداروں کی حدود طے کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ نے احتجاج کے دوران سڑکیں بند کرنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائی بھی ضروری قرار دی ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔ 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فیص آباد دھرنے کا فیصلہ سنانا آسان نہیں ہے اس لیے ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا ہے۔ تاہم، انہوں نے ملکی ترقی اور سالمیت سے متعلق قائداعظم کے 3 فرمان پڑھ کر سنائے۔
دھرنے کے شرکا نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قانون شکنی پر سزا نہیں ہو گی تو قانون شکنوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ دھرنے کے شرکا نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا ہے۔
دھرنے کے دوران ملک کو یومیہ 88 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔ 16 کروڑ39 لاکھ 52 ہزار روپے مالیت کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت بنانا اور احتجاج کرنا ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ لیکن، دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
سڑکیں بلاک کرنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔
عدالت نے کہا کہ سانحہ 12 مئی 2007ء کے ذمہ دار حکومتی عہدیداروں کو سزا نہ ملنے سے غلط روایت پڑی ہے۔
اس سانحہ پر ریاست کی ناکامی نے دیگر لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے تشدد کی راہ دکھائی۔ وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف نفرت انگیزی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے جس کی سزا عمر قید ہے۔
خفیہ اداروں کو قانون کا پابند بنایا جائے
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف، شیخ رشید اور پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماوں نے دھرنے کی حمایت جبکہ نیوز چینل 92 کے مالکان دھرنے والوں کو خوراک فراہم کرتے رہے، پیمرا نے مذکورہ چینل کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا۔
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ پیمرا ڈان اور جیو کے حقوق کی حفاظت بھی نہیں کر سکا، ڈان اور جیو کو کنٹونمنٹ اور ڈی ایچ اے میں بند کردیا گیا، چینلز کی بندش پر پیمرا نے کوئی ایکشن نہیں لیا، الیکڑانک ذرائع سے نفرت انگیز تقاریر جرم ہیں جو الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعات 11اور12کے تحت قابل سزا ہیں، مذکورہ جرم میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک ذرائع سے نفرت انگیزی پر کوئی تفتیش نہیں کی گئی، اخبارات پر سنسر شپ عائد کردی گئی، میڈیا کو سلف سینسر شپ کی ہدایات جاری کرنا آزادانہ موقف دبانہ غیر قانونی ہے۔
یہ ہدایات جاری کرنا کہ فلاں صحافی کو رکھ لو فلاں کو فارغ کردو غیر قانونی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔
فیصلے کے مطابق، آئی ایس آئی نے تحریک لبیک کی فنڈنگ اور ذرائع روز گار کے حوالے سے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے دائرہ کار کے بارے میں بھی وضاحت نہیں کر سکا ہے اور آئی ایس آئی کے حکومتی معاملات میں مداخلت کے تاثر کی تردید نہیں ہو سکی۔
اصغر خان کیس کا تذکرہ بھی دھرنا کیس کے فیصلے میں شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے تحریر کیا ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد آئی ایس آئی اور مسلح افواج کی مداخلت بند ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے باوجود باوردی افسروں نے دھرنا دینے والے مظاہرین میں پیسے تقسیم کیے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فوجی افسر سیاست میں کردار ادا کرتا ہے تو وہ اپنے منصب کے اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ فوجی افسران میڈیا پر بھی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتی، حساس اداروں کو نفرت انگیزی کرنے والوں کیخلاف تحقیقات کرنی چاہیے، نفرت انگیزی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اسلامی اصولوں کے بھی منافی ہے۔
عدالت نے فیصلے کی کاپی حکومت پاکستان، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ، آئی ایس آئی، آئی بی اور فوج کے سربراہ کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔
ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف مذہبی جماعت تحریکِ لبیک نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا جو کئی روز تک جاری رہا تھا۔
مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
27 نومبر 2017 کو اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے تھے اور آپریشن میں گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا گیا تھا۔